شامِ الم ڈھل بھی جائے تو اثر رہتا ہے |
ڈنک نکال بھی دو تو زہر مگر رہتا ہے |
جا کے کوئی تو بتلائے یہ ابرِ کرم کو |
دل میں مرے اِک سُوکھا اُداس شجر رہتا ہے |
گو کہ گُزر چکا ہے غمِ دوراں کا موسم |
پھر بھی اجنبی سا دل میں اِک ڈر رہتا ہے |
سب کے بچھڑ جانے کا ہے اِک وقت مقرر |
ساتھ کوئی نہیں یارو زندگی بھر رہتا ہے |
اِک مدت ہوئی میں کچھ مست سا رہتا ہوں جمالؔ |
اِس لئے دل دُنیا سے کچھ بے خبر رہتا ہے |
معلومات