غم سے عِلم کے دھارے نکلے
تاریکی میں تارے نکلے
جلتا ہے کچھ قلب و جاں میں
لب جو کُھلے، انگارے نکلے
وقت برا ہے، یہ مت پوچھو
کتنے سجن ہیں ہمارے نکلے
کامِل تھا ایقان ہمارا
صحرا میں فوارے نکلے
ایفائے عہد و پیماں میں
گھاٹے ہمارے سارے نکلے

34