| میں کہہ گیا تھا تجھے اپنی رائیگانی میں |
| پِھسل ہی جاتی ہے اکثر زباں روانی میں |
| نگاہِ یار کے بس ایک زاویے کے سبب |
| اُجڑ گیا ہے مرا باغِ دل جوانی میں |
| لکھے گا جب کوئی افسانۂ جنوں یارو |
| مرا بھی نام کہیں آئے گا کہانی میں |
| اِسی اُمیدِ کرم پر ہوں دربدر میں تو |
| مکان اپنا بھی آئے گا لا مکانی میں |
| جمالؔ دھیان میں رکھنی ہے زندگی اپنی |
| یہ مار ڈالتی ہے ورنہ بدگمانی میں |
معلومات