میکدے میں شراب باقی ہے
ابھی میرا شباب باقی ہے
رکھ دیا ہے جلا کے دل میرا
کیا ابھی اور حساب باقی ہے
آج کا دن بھی تھا اُداس بہت
ابھی شب کا عذاب باقی ہے
پڑھ چکا تھا کتابِ رنج و الم
پھر یہ کیسا نصاب باقی ہے
تھک گیا چُنتے چُنتے کِرچیاں میں
ابھی اِک ٹوٹا خواب باقی ہے
منا لے اپنی جیت کا تُو جشن
ابھی میرا جواب باقی ہے
کر چکا عاشقی سے توبہ جمالؔ
پھر بھی اِس کا عتاب باقی ہے

14