رشتے تو سبھی نِبھا رہا ہوں
لیکن کچھ بس چَلا رہا ہوں
ہے چھوڑ دیا شکوہ کرنا
زیرِ لب مُسکرا رہا ہوں
باطِن کے وحشی جانور کو
الفت کا سبق پڑھا رہا ہوں
بے پروا اپنے دل کے کارن
میں دھوکے پہ دھوکا کھا رہا ہوں
بد تہذیبی کے عہدِ نو میں
عزت اپنی بچا رہا ہوں
میں کچھ بیدار حسرتوں کو
لُوری دے کے سُلا رہا ہوں
دُنیا سے جمالؔ رفتہ رفتہ
ہوتا میں دُور جا رہا ہوں

11