رشتے تو سبھی نِبھا رہا ہوں |
لیکن کچھ بس چَلا رہا ہوں |
ہے چھوڑ دیا شکوہ کرنا |
زیرِ لب مُسکرا رہا ہوں |
باطِن کے وحشی جانور کو |
الفت کا سبق پڑھا رہا ہوں |
بے پروا اپنے دل کے کارن |
میں دھوکے پہ دھوکا کھا رہا ہوں |
بد تہذیبی کے عہدِ نو میں |
عزت اپنی بچا رہا ہوں |
میں کچھ بیدار حسرتوں کو |
لُوری دے کے سُلا رہا ہوں |
دُنیا سے جمالؔ رفتہ رفتہ |
ہوتا میں دُور جا رہا ہوں |
معلومات