وہ جفا کر کے بھی باکردار نکلے |
ہم وفا کر کے بھی گُنہ گار نکلے |
سُولی چڑھا تو دیکھا یہ صحنِ مقتل |
میرے مُنصف میرے ہی کچھ یار نکلے |
حالِ دل میرا جب بھی پوچھا کسی نے |
میری آنکھوں سے آنسو ہر بار نکلے |
غمگیں ساون کی ڈستی راتوں میں اکثر |
کچھ مچلتے جُگنو ہی غم خوار نکلے |
گُلشنِ ہستیِ دو روزہ میں جمالؔ |
پُھول سُوکھے اور پیڑ پُر خار نکلے |
معلومات