| سیکھا ہے درویشوں کی مدہوشی سے |
| سہ لیتا ہوں سب باتیں خاموشی سے |
| کیسا لاپرواہ ہے دلبر میرا بھی |
| سُن نہ سکا جو آہ بھی ہم آغوشی سے |
| کچھ بھی نہیں باقی اب بزمِ رِنداں میں |
| مرتے نہیں ہیں غم بھی اب مے نوشی سے |
| اشکِ ندامت سے ہی کچھ ہو سکتا ہے |
| دل کے داغ نہیں چھپتے خوش پوشی سے |
| توڑ کے اپنی خواہش کا کشکول جمالؔ |
| دیکھ تماشا کُن کا اب خاموشی سے |
معلومات