سیکھا ہے درویشوں کی مدہوشی سے
سہ لیتا ہوں سب باتیں خاموشی سے
کیسا لاپرواہ ہے دلبر میرا بھی
سُن نہ سکا جو آہ بھی ہم آغوشی سے
کچھ بھی نہیں باقی اب بزمِ رِنداں میں
مرتے نہیں ہیں غم بھی اب مے نوشی سے
اشکِ ندامت سے ہی کچھ ہو سکتا ہے
دل کے داغ نہیں چھپتے خوش پوشی سے
توڑ کے اپنی خواہش کا کشکول جمالؔ
دیکھ تماشا کُن کا اب خاموشی سے

27