خود شناسی میں کبھی ایسا مقام آتا ہے
آدمی جس میں تماشائی سا بن جاتا ہے
اشک کرنے چلے آتے ہیں چراغاں اُس میں
عشق اپنے لئے گھر دل میں جو بنواتا ہے
جب بھی کھل جاتے ہیں اسرارِ فقیری دل پر
آدمی غم میں بھی پھر لطف و سکوں پاتا ہے
رنگ و رس کو جو ہُوا شہرِ ہوس میں گُم صُم
عشق پھر اُس کو کہاں بزم میں بُلواتا ہے
موجزن جس کے ہو طوفانِ محبت دل میں
وہی انسان تو اِک دن ولی بن جاتا ہے

0
28