آنکھ میں جب نمی نہیں رہتی
عشق میں بے خودی نہیں رہتی
ٹوٹ جائے اگر بھروسہ تو پھر
رشتوں میں چاشنی نہیں رہتی
بُغض میں مُبتلا ہوا جو اگر
روح میں تازگی نہیں رہتی
حق گو کے حلقۂ عزیزاں میں
دشمنوں کی کمی نہیں رہتی
کاٹ بھی دو زباں جمالؔ اگر
بات حق کی چھپی نہیں رہتی

25