کبھی بھولی ہوئی یادوں کی جب بارات آتی ہے
تو میری آنکھ میں اشکوں کی اک برسات آتی ہے
برستی جب بھی ہیں بوندوں کی ٹپ ٹپ دل کے صحن میں
مرے اندر ترے غم کی اُداسی ساتھ آتی ہے
یونہی جلتے نہیں ہیں یہ چراغِ زخم برسوں سے
ہمارے دل کو تڑپانے کو لمبی رات آتی ہے
چلے آتے ہیں آنسو رقص کرنے کو اِن آنکھوں میں
ہمیں جس دن بھی کوئی یاد تیری بات آتی ہے
کفِ افسوس ملنے کا جمال اب فائدہ کیا ہے
بھلا یہ عمرِ رفتہ کب کسی کے ہاتھ آتی ہے

41