مِری تسبیح کے بکھرے ہیں یوں دانے سارے
رفتہ رفتہ ہوئے گُم چہرے پُرانے سارے
یاد کے شہر میں اب بھی دلِ نادان مرا
کُو بہ کُو ڈھونڈتا ہے گُزرے زمانے سارے
ناز تھا جن کو کفِ چارہ گری پر یارو
ہیں کہاں دردِ دروں میں وہ سیانے سارے
ڈر کے اُٹھ جاتا ہوں میں نیند سے اکثر شب کو
جانے کیوں روٹھ گئے خواب سُہانے سارے
زخمِ دل پہلے ہی تازہ تھے سبھی میرے جمالؔ
اور آ پہنچے نئے زخم لگانے سارے

15