تم نے ابھی کھیلی بھی نہیں آنکھ مچولی ہے
اور میں نے جوانی صحرا گردی میں رولی ہے
گر شوقِ تماشہ کبھی اُٹھا جو مرے دل میں
تو آنسوؤں سے کھیلی اپنے میں نے ہولی ہے
جب بھی کبھی نِکلا بہلانے کو میں جی گھر سے
میری غمِ ڈولی میرے ساتھ ہی ہو لی ہے
لفظوں سے ہی دعوائے محبت نہیں ہوتا میاں
دُکھتی رگِ جاں میری کبھی تم نے ٹٹولی ہے
مانا کہ مے و ساغر و مینا ہے بہت بُری
مستیِ انا بھی تو اِک زہر کی گولی ہے
نومیدی کو اِک کفر سمجھتا ہوں میں بھی جمالؔ
پھیلا کے میں نے اپنی رکھی ہوئی جھولی ہے

0
24