ناداں نکلے ورنہ ملے تو تھے اشارے بہت |
کہ محبت میں ہوتے ہیں بھاری خسارے بہت |
یہ ترا ہی جنوں تھا جو غرق ہوا بحرِ الفت |
ورنہ کشتیِ جاں کی نِگہ میں تھے کنارے بہت |
اِک ہم ہی نہیں گرداشِ دوراں میں خاک بسر |
اِس دنیا میں رنج و غم کے ہیں مارے بہت |
یہ زُعمِ بلندی خاک میں ہی نہ ملا دے تجھے |
میں نے دیکھے ہیں گرتے ٹوٹے تارے بہت |
بچا کے رکھ اِس دنیا میں تُو قصرِ دل اپنا |
اڑتے پھرتے ہیں یہاں غمِ جاں کے شرارے بہت |
تہ و بالا کر گیا ہے یہ زمانہ ہمیں ورنہ |
اِس دنیا میں تھے ہمارے وارے نیارے بہت |
معلومات