مری نجانے روح کب کی پیاسی ہے
جو آنکھوں میں تڑپتی یہ اُداسی ہے
کسی دُکھی بَلا کا سایہ ہے یہاں
جو شہرِ دل میں اتنی بد حواسی ہے
میں کُھو گیا جمالؔ خود کی کھوج میں
یہ کیسی یارو خود کی خود شناسی ہے

0
2