تاریکیوں میں جیسے ستارے نکلتے ہیں |
غم سے ہمارے عِلم کے دھارے نکلتے ہیں |
نفرت کسی کی جل تو رہی ہے وجود میں |
ہر لفظ میں جو اپنے شرارے نکلتے ہیں |
اب تو یہ بات ہم کو بتائے گا وقت ہی |
اِن دشمنوں میں کتنے ہمارے نکلتے ہیں |
دل میں خُدا کی ذات کا کامل یقیں جو ہو |
صحرا میں پانیوں کے فوارے نکلتے ہیں |
ہم تو جمالؔ اہلِ محبت ہیں کیا کریں |
گھاٹے اِسی سے سارے ہمارے نکلتے ہیں |
معلومات