تاریکیوں میں جیسے ستارے نکلتے ہیں
غم سے ہمارے عِلم کے دھارے نکلتے ہیں
نفرت کسی کی جل تو رہی ہے وجود میں
ہر لفظ میں جو اپنے شرارے نکلتے ہیں
اب تو یہ بات ہم کو بتائے گا وقت ہی
اِن دشمنوں میں کتنے ہمارے نکلتے ہیں
دل میں خُدا کی ذات کا کامل یقیں جو ہو
صحرا میں پانیوں کے فوارے نکلتے ہیں
ہم تو جمالؔ اہلِ محبت ہیں کیا کریں
گھاٹے اِسی سے سارے ہمارے نکلتے ہیں

2
58
بہت اچھے

نوازش