نَے کوئی دیدہ ور اور نہ ہی رہبر اپنا
کامراں کیسے ہو عشقِ جنوں کا یہ سفر اپنا
قطرہ قطرہ نہ بھر دل میرا درد سے اے زیست
تُو یک بار اُتار دے لہو میں یہ زہر اپنا
اتنا بھی نہ ڈرا اے واعظ موت سے ہم کو
آ ہی نہ جائے کہیں سُن سُن کے یہ ذِکر اپنا
ایک طرف کوئے حرم ایک طرف کوئے یار
لگتا نہیں ہے دل اِدھر اور نہ ہی اُدھر اپنا
میں تو عالمِ تنہائی کا باسی ہوں جمال
پھر کیسے ہو بھری دنیا میں گُزر بسر اپنا

0
8