یہاں جو معتبر ہے وہ گنوایا جا رہا ہے
فقط معمولی چیزوں کو بچایا جا ریا ہے
۔
مجھے آنے لگا ہے دھیان اپنی حالتوں کا
سو اپنے آپ سے اب دور جایا جا رہا ہے
/
محبت میں ہر آن اک زخم کھایا جا رہا ہے
گلوں کی طرح پھر بھی مسکرایا جا رہا ہے
/
کئی صدیوں سے اس دل کی تسلی کے لیے ہاں
ہمیں اک فرضی افسانہ سنایا جا رہا ہے
۔
وہ پچھلی وحشتوں کے جالے یکدم جھاڑ کر اب
نئی تصویروں سے گھر کو سجایا جا رہا ہے
.
یہ کس کا سایہ پوجھا جا رہا ہے پہلے کی طرح
یہ کس کا ہجر پھر سے اب منایا جا رہا ہے
۔
کسی کے حصے میں تو نظروں کی شربت نہیں اور
کسی کو ناف پیالے سے پلایا جا رہا ہے
۔
زرا دل سے تو پوچھو حسن والو اے غزالوں
قیامت آنکھوں سے کیا حشر ڈھایا جا رہا ہے
۔
اب ایسے حال پر کیا ہی کرے کوئی بتاؤ
بس اپنے حال پر اب مسکرایا جا رہاہے
۔
مسلسل یادوں کی سگریٹ جلائی جا رہی ہے
کسی کو یعنی زوروں سے بھلایا جا رہا ہے
۔
جو بھی تھا درمیاں پردہ ہٹایا جا رہا ہے
نمود و بود کا منظر دکھایا جا رہا ہے
۔
زرا اپنی خدائی کا بھرم رکھ اک نظر دیکھ
خدایا تیرا ہر شہکار ضائع جا رہا ہے
۔
میں تو اپنی حقیقت جانتا ہوں آدمی ہوں
تمہیں کیوں کر خدا لیکن بنایا جا رہا ہے
۔
وہاں سے تو گماں کی کچھ خبر تک بھی نہیں ہے
یہاں سب کو یقیں لیکن دلایا جا رہا ہے

0
56