Circle Image

mir shahryaar

@shahryaar

چناروں کی وادی بہاروں کی وادی
بہت یاد آتی ہے یاروں کی وادی
بہت جی لیا غیروں کی بستی میں، چل
ہمیں ڈھونڈھتی ہے ستاروں کی وادی

0
6
پھر یہ محبتوں کے موسم نہیں آنے والے
آ بھی جائیں لیکن ہم نہیں آنے والے
مدت تک کھاتے رہے تیری تمنا کے زخم
اب ہم جھانسے میں اک دم نہیں آنے والے

0
6
ہے ابھی سے تمنا نئے رخموں کی
زخم پچھلی محبت کے بھرنے تو دے
کھلنے ہیں کیسے کیسے چمن میں گلاب
ہجر کا پہلا موسم گزرنے تو دے

0
7
اس مہک کی مہک ہواؤں میں ہے
شاید اس وقت وہ بھی گاؤں میں ہے
تجھے جس شے پہ ہے غرور اتنا
دیکھ ناداں وہ میرے پاؤں میں ہے

14
وہ سکوں دے نہیں پایا تو کیا
اس نے جو درد بخشا، بہت ہے
ایک دم مجھ میں ٹھہرا نہیں وہ
وہ مگر مجھ سے گزرا، بہت ہے

0
19
کب تک خوابوں کی جھوٹی پگڈنڈیوں پر چلے گا پاگل
سب کچھ جان کے بھی کب تک تو دھوکے میں رہے گا پاگل

10
دیکھا اس کے بن کیسا لگتا ہوں
پورا ہو کے بھی آدھا لگتا ہوں
اندر کیا ہوں وہ بس میں جانتا ہوں
حلیے سے تو دیوانہ لگتا ہوں
یہ بیگانی نظروں کی شرارت ہے
دیکھو میں بالکل تم سا لگتا ہوں

0
55
لا کے اپنے شہر میں ہم کو چھوڑ دیا
ہم ان گلیوں میں کھو بھی تو سکتے تھے
لاج رکھی ہے پندارِ دل کی ورنہ
ہم ایسے پاگل رو بھی تو سکتے تھے

0
16
اس الجھن کو خواب کرو
کچھ تو بات جناب کرو
دے کے اُن ہونٹوں کا رنگ
اِن ہونٹوں کو گلاب کرو
جامِ شعور پلا کے ہمیں
شوق سے ہم کو خراب کرو

0
10
کچھ کھوئی کھوئی رہتی ہوں کچھ الجھی الجھی رہتی ہوں
تیری قربت میں آ کر میں تیری فرقت سہتی ہوں
دن تو گزارتی ہوں ہنسی کے زنگین مکھوٹے پہن کر میں
دن ڈھلتے ہی چاند نکلتے ہی شب بھر اشکوں میں بہتی ہوں
وہ پاگل جانے کب ہجر کا یک طرفہ اعلان کرے
بس اسی ایک خیال میں پل پل سہمی سہمی رہتی ہوں

0
24
ہٹا دے گھٹاؤں کا آنچل مرے چاند
مرے دل کی دھڑکن ہے بیکل مرے چاند
تجھے ڈر تھا دن کا مگر اب ہوئی شام
نظر آ مجھے میرے پاگل مرے چاند
بہت دن ہوئے ہیں پرائی زمیں پر
ہمیں ڈھونڈتا ہے فلک چل میرے چاند

0
32
ہے یہ خواہش تو پل پل مرے ساتھ ہو
اور تجھ سے بچھڑنے کی خواہش بھی ہے
ساتھ ایسے ہیں جیسے کہ صدیوں تھے ساتھ
بیچ میں پر قیامت سی رنجش بھی ہے

0
17
ٖضرورت تھی بس بات کرنے کی سب کو
مگر بات کرنے کی فرصت کسے ہے
اب اس بستی میں سب خدا بن گئے ہیں
اب اک دوسرے کی ضرورت کسے ہے

0
17
یہ ہمیں دکھ نہیں ان کے پیچھے بہت دن گنوائے
دکھ تو یہ ہے کہ وہ دن ہماری جوانی کے دن تھے

0
12
جھوٹے تھے ہم اور جھوٹے تھے ہمارے خواب
ساتھ ہمارے بکھر گئے آخر سارے خواب
پچھلے خوابوں کا انجام تو یاد ہے ناں
اب نہ دکھاؤ پھر وہی پیارے پیارے خواب
ان سوکھے دریاؤں میں کچھ پانی بھی تو ہو
خالی خالی آنکھوں سے کون سنوارے خواب

41
آتا ہے خوش خرام سرِ شام دھیان میں
اور پھیلتی ہے چار سو خوشبو مکان میں

14
جانے پے تھا اڑا میں نے جانے دیا
درمیاں تھا ہی کیا میں نے جانے دیا
جس کی آنکھوں میں میرے لیے کچھ نہ تھا
رک بھی جاتا تو کیا میں نے جانے دیا
کتنے شکوے تھے کتنے گلے تھے مجھے
میں مگر چپ رہا میں نے جانے دیا

0
26
ان آنکھوں کو تو نے جن کے خواب دکھائے ہیں برسوں
وہ رت کب آئے گی وہ پھول ہیں کب کھلنے والے
اک تیری تصویر سے کتنے گلے کروں میں آخر
تو بھی تو کبھی آ کے مجھ سے مل اے نہ ملنے والے

0
19
دریا بھی نہیں کشتی بھی نہیں پھر ہم سفرو سفر کیسا
ویرانے میں بھٹکنا ہی ہے بھٹکو بھٹکے کا ڈر کیسا
کیسا اسیری کا اندیشہ اور کیسی جستجوئے فرار
ایسے من کے زنداں کی دیواریں کیسی در کیسا
قسمت میں لکھا ہے ویرانے کا سفر سو کرتے ہیں
دیوانے تو دیوانے ہیں دیوانوں کا گھر کیسا

31
تیرے خیال میں تھے گم اپنا خیال کس کو تھا
ایسی بھی بے خیالی کا جاناں ملال کس کو تھا

0
16
گجرا دیکھو کنگن دیکھو
کیسی سجھی ہے دلہن دیکھو
تیری یاد کا جوڑا پہنے
جوگ لگائے جوگن دیکھو
الجھی الجھی کھوئی کھوئی
کب سے بیٹھی ہے برہن دیکھو

45
ساون ساون یادیں برسیں
چھم چھم چھن چھن یادیں برسیں
صحرا صحرا بھٹکے بادل
گلشن گلشن یادیں برسیں
پل دو پل کی تھی یادیں ساری
جیون جیون یادیں برسیں

34
بنا رہا تھا اپنی تصویر تیری تصویر بن گئی
میرے الجھے الجھے وجود کی تو تفسیر بن گئی

0
13
بولو دیکھ کر مجھ کو کس کی یاد آتی ہے؟
تجھ کو دیکھتا ہوں تو اپنی یاد آتی ہے

0
16
درپن درپن ڈھونڈ رہا ہے بھولی بسری صورت اپنی
کچھ دیوانے کو یاد نہیں کیسی تھی کیا تھی حالت اپنی
جب سے میرے نین ملے نیلی نینو والی دیوی سے
بدلے بدلے حال ہیں اپنے بدلی بدلی رنگت اپنی
اس عشق میں ہے گلی گلی بدنامی کوچہ کوچہ رسوائی
وہ اپنے گھر میں ہی رہے جس کو پیاری ہو عزت اپنی

91
اس نے زلفیں سنوارنی ہیں وقت نے ٹھہر جانا ہے
ایسے چاند کو دیکھنے چاند نے چھت پہ اتر جانا ہے
ان گھنی زلفوں کے جنگل میں بھٹکتے بھٹکتے آخر
دل نے ایسے نیلے دریا میں ڈوب کے مر جانا ہے
ہے ایسی تاثیر اس مسیحا زادی کے ہاتھوں میں
اس نے بس ہاتھ رکھنا ہے اور زخم نے بھر جانا ہے

0
28
گاہے گاہے تو مجھے لگتا ہے کہ میں ہوں
یہ میری آنکھوں کا دھوکہ ہے کہ میں ہوں

0
11
گھر سے گھر کا سفر ہے بس
مسئلہ رہ گزر ہے بس

0
16
خواب پھر تو نئے سفر کے دیکھ
پہلے حالات اپنے گھر کے دیکھ
یہ زمیں وہ زمیں نہیں ہے کہ تو
آسماں سے کبھی اتر کے دیکھ
کیا خبر لوٹ آئے اگلے پل
تھوڑا اور انتظار کر کے دیکھ

0
22
کسی طرح عشق کا فسانہ مکمل کر نہیں پائے
اقرارِ جرم کہ ہم تیرے ہجر میں مر نہیں پائے

0
12
سہانی یادوں کا قافلہ، اب بھی ہر شام آتا ہے
جیسے کسی پردیسی کو گھر سے پیغام آتا ہے
رکھتی ہیں جب وہ پھول سے ہاتھ مری پیشانی پر
درد ٹھہر جاتے ہیں دل کو آرام آتا ہے
جب کہیں ٹھوکر لگتی ہے گرتا ہوں تو لب پر
پہلے آتا تھا ماں کا اب تیرا نام آتا ہے

40
کبھی اپنا کبھی تیرا ہو جاتا ہوں
بیٹھے بیٹھے یونہی کھو جاتا ہوں
جب اس مہ زادی کے خوابوں سے کچھ
فرصت ملتی ہے تو سو جاتا ہوں
اس کو حاصل ہے طلسمِ کن کا فن
وہ کہتا ہے ہو میں ہو جاتا ہوں

23
آتا ہے کون تجھ پہ مرنے یہاں
تو خبر مرنے کی اڑا کے دیکھ
حال ایسا ہے کوئی حال نہیں
اپنے دیوانے کو تو آ کے دیکھ

0
12
کسی کی دسترس میں آ تو سہی
کسی لیلی سے دل لگا تو سہی
نہ کوئی بات اور نہ کوئی گلہ
کیا ہوا میری جاں بتا تو سہی
گر محبت نہیں تو نفرت ہی
کوئی تعلق مگر نبھا تو سہی

0
26
دن ڈھلتے ہی گھر میں شور اٹھاتی ہے تنہائی
بامِ دل پر یاد کی شمع جلاتی ہے تنہائی

0
14
میں کب تک تتلیوں کے خواب دیکھوں
بچھڑ مجھ سے مجھے حیران تو کر

0
17
مجھ کو تیرے قریب رہنا تھا
اس لیے تجھ سے دور رہنا پڑا

0
14
کہہ دیا جو ان سے وہ نہیں کہنا تھا
ساری بات بگڑ گئی چپ رہنا تھا
دل کی پہاڑیوں سے نکل کر آخر
پلکوں تک آ گیا تھا میں مجھے بہنا تھا
مجھ کو یہاں کیسے پہچانتا کوئی
میں نے لباس آدمی کا پہنا تھا

0
33
اب پھر کسی کے جانے پہ رونے لگا ہے تو
اے میرے دل یہ کوئی نئی بات تو نہیں
جو کہنا چاہتی ہو کہ اک بات کہنی ہے
ڈر جس کا ہے مجھے یہ وہی بات تو نہیں؟

0
28
ملتی ہے نظر آہستہ آہستہ
ہوتا ہے اثر آہستہ آہستہ
کب تھا اسے مری حالت کا احساس
ٹوٹا ہے پتھر آہستہ آہستہ
اترتی ہے وہ ترچھی نظر آنکھوں سے
کٹتا ہے جگر آہستہ آہستہ

54
وہ جا رہی ہے گلشن ویران ہونے کو ہے
دل موسمِ خزاں میں بے جان ہونے کو ہے
لے کر تو خواہشوں کو بازار میں نہ آنا
اس کاروبار میں دل نقصان ہونے کو ہے
زادِ سفر نہ کھولو ہم سفرو ٹھہرو ٹھہرو
یاں پھرنئے سفر کا اعلان ہونے کو ہے

0
52
تو تو پھر بھی تو ہے، اپنی ذات پہ شک ہے
بات یہ ہے اب مجھے ہر بات پہ شک ہے

26
کوئی دن اس شہرِ ستم میں گزار کے دیکھ
خوں ہی خوں ہے، اب کے رنگ بہار کے دیکھ
میری رگوں میں بھی دوڑتا ہے حیدؔر کا خون
تو خنجر میرے سینے میں اتار کے دیکھ

0
22
تم بھی جیت گئے
ہم بھی جیت گئے
ہارا کون یہ بعد میں سوچیں گے
تم بھی جشن مناؤ
ہم بھی جشن منائیں
کس کے گھر ماتم ہے یہ بعد میں سوچیں گے

0
26
میں سو نہیں پا رہا ہوں مجھے اتنا یاد نہ کر
میں پہلے سے برباد ہوں اور برباد نہ کر
جب شوق تھے اڑنے کے تب دیتا رہائی تو
اب کیا ہی فائدہ اب مجھ کو آزاد نہ کر

83
ہاں میں نے تیرا دل توڑا
تجھ کو آدھے رستے چھوڑا
ہاں دیپ جلائے الفت کے
اور خواب دکھائے محبت کے
پھر آندھی چلائی خود میں نے
اور آنکھیں بجھائی خود میں نے

0
121
تم نے جانا ہے جا کوئی بات نہیں
ترکِ عہدِ وفا کوئی بات نہیں
روؤ مت رونے سے کیا ہی ہوگا بھلا
جو ہوا سو ہوا کوئی بات نہیں
آئنے کی طرح ٹوٹ جائیں گے ہم
ہنسئے ٹوٹنا کوئی بات نہیں

0
53
یہ سفر دھوپ کا سفر ہے دوست
شام ہوتے ہی لوٹ آؤں گا

0
17
رک گئے یا ٹھہر گئے ہوں گے
کون جانے کدھر گئے ہوں گے
جن دوانوں کو ڈھونڈتی ہے صبا
وہ سرِ شام مر گئے ہوں گے
اس نظر سے یوں چھلکی ہوگی شراب
سارے پیمانے بھر گئے ہوں گے

0
54
میرے ہونے کو ہونا تم نے کِیا
بھوری مٹی کو سونا تم نے کیا

0
15
کون ہوں کیا ہوں یہ سب بتانے سے قاصر ہوں میں
یوں سمجھ خود ہی منزل ہوں خود ہی مسافر ہوں میں
تو ابھی دے رہا ہے مجھے پارسا کا خطاب
پر ابھی کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ کافر ہوں میں
ساتھ تو چل رہے ہیں مگر یونہی مجبوری میں
وہ مری امرتا ہے نہ ہی اس کا ساحر ہوں میں

59
خواب ٹوٹے تو کیا خواب دیکھے تو تھے
ہم مقدر سے کچھ دیر الجھے تو تھے
چار پل ہی سہی کارواں تو چلا
تو ہمارا تو تھا ہم تمہارے تو تھے
تو نے آواز دی ہی نہیں ورنہ ہم
تیرے کوچے میں کچھ دیر ٹھہرے تو تھے

0
51
چاہتوں کے مرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
جان سے گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
ایک عمر لگتی ہے خوابوں کے سجانے میں
خوابوں کے بکھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
زندگانی لگتی ہے سیکھنے میں تیراکی
دریا پار کرنے میں دیر کتنی لگتی ہے

46
کہاں سے آیا ہے یہ کون ہے
جو ایسے شور میں بھی مون ہے
نہیں بچنے کی گنجائش کوئی
یہاں تو موسی ہی فرعون ہے

0
9
115
میں اگر ضائع ہوں تو اس پہ کیا حیرت بھلا
میں محبت تھا مجھے رائگاں تو ہونا تھا

0
30
آنکھیں بھی اور خواب بھی رکھ لو
یہ لو خوشبو، گلاب بھی رکھ لو
وصل کا وہ سراب ہے ترے پاس
ہجر کا یہ عذاب بھی رکھ لو
رکھے ہو آنکھوں میں سوال کئی
اور لبوں پر جواب بھی رکھ لو

50
خواب جنت کے دکھانے والے
ہم نہیں جھانسے میں آنے والے
کوئی کشتی بھی بنائی ہوتی
جا بہ جا دریا بنانے والے
جسم سے جان نکل جاتی ہے
مڑ کے مت دیکھ یوں جانے والے

109
رہ گیا جو آدھا اس افسانے کو انجام تو دے
جو کبھی تھا ہی نہیں اس رشتے کا کچھ نام تو دے
میں نے مانا میں ترا مجرم ہوں سو اے بے وفا شخص
جاتے جاتے تو کوئی طعنہ کوئی الزام تو دے
میرے خوابوں اور جوانی کا خسارہ چھوڑ لیکن
جو ترے پیچھے گنوائے ان دنوں کا دام تو دے

34
یوں تو لاکھ جسموں سے میں ہوکے آیا
مگر خود سے شاید ہی گزرا کبھی میں

0
18
چپ رہوں گا میں اور کچھ نہیں بولوں گا
سب سہوں گا میں اور کچھ نہیں بولوں گا
نیم جاں تیرے لہجے کی دہلیز پر
مر رہوں گا میں اور کچھ نہیں بولوں گا
اک صدی صورتِ اشک تھا پلکوں پر
اب بہوں گا میں اور کچھ نہیں بولوں گا

33
مجھے دونوں حالتوں میں مرنا تھا
گر نہیں قربت تو فرقت ہی سہی

0
20
میرے کمرے میں بیشتر تم تھے
میں نہیں تھا یہاں مگر تم تھے
سارے چہروں میں سر بسر تم تھے
میں جہاں بھی گیا ادھر تم تھے
فکرِ منزل مجھے ستاتی کیوں
راہ بر میرے ہم سفر تم تھے

0
42
تنہا تھا میں مگر تمام سفر
ایک سایا سا میرے ساتھ رہا
تھے مگن اس قدر کہ صبح تلک
ہاتھوں میں میرے اس کا ہاتھ رہا

0
23
اب کوئی خواب نہیں بُننا مجھے
اپنے دل کی بھی نہیں سننا مجھے
خود کو آزاد کروں گا اب میں
دشت آباد کروں گا اب میں
بس تری یادوں نے الجھایا بہت
اپنی الفت کا صلہ پایا بہت

0
39
اب تو آئے نہ آئے اب تو مجھے
اپنے اندر پناہ مل گئی ہے
تجھ کو پانے کی جستجو میں مجھے
خود میں کھونے کی راہ مل گئی ہے

0
29
تیری یادوں کی لہریں مجھے دائیں بائیں کر رہی ہیں
دل میں دردِ دل کی موجیں ٹھائیں ٹھائیں کر رہی ہیں
میں بھی جلتا رہتا سحر تک کسی ٹوٹے دریچے پر
میرے خلاف سازشیں شہر کی سرد ہوائیں کر رہی ہیں

0
16
تم ہمارے ہو ہم تمہارے ہیں
وہم الفت کے کتنے پیارے ہیں
ہم کو حیرت ہے جانے کیسے پھر
بعد بھی تیرے دن گزارے ہیں
ساری دنیا ہمارے قدموں میں ہے
ہم جو ہارے تو خود سے ہارے ہیں

0
31
سب آندھیوں کو رکھ کے وہ اپنے دھیان میں
مصروف ہیں پرندے اپنی اڑان میں
روٹھا ہے دل سے میرے جب سے ترا گماں
کوئی گماں نہیں ہے میرے گمان میں

0
18
منتظر شام سے ہم کس لیے ہیں
تیری ان زلفوں کے خم کس لیے ہیں
اب تو کوئی خوشی کی بات نہیں
اب یہ آنکھیں تری نم کس لیے ہیں

0
20
تجھ کو پہچاننا ہی مشکل ہے
یہ ترا آئینہ نہیں، میں ہوں
یہ جو رہتی ہے دل میں بے چینی
کوئی اور سانحہ نہیں، میں ہوں

0
20
کئی ہفتوں سے اپنے کمرے میں
اپنے سائے سے لڑ رہا ہوں میں
اب کتابیں پڑھی نہیں جاتی
اب یہ دیواریں پڑھ رہا ہوں میں

0
16
آگہی ہے عذاب یا رب
کر دے مجھ کو بھی خواب یا رب
آج شبنم کے قطروں سے کیوں
جل رہے ہیں گلاب یا رب

0
25
خواب میں الجھاؤ مت خواب دکھاؤ مت
تتلی کو دور سے سرخ گلاب دکھاؤ مت
تم نے اگر نہیں ہے اے ساقی پلانی تو پھر
ایسے شرابی کو پھر یہ شراب دکھاؤ مت

0
21
تم سے مل کر کچھ ہم بھی پھر بے باک ہو گئے
جتنے بھی دل میں ڈر تھے سارے خاک ہو گئے

0
24
مختصر غم کا قصہ ہُوا ہی نہیں
دل مسافر کہیں پر رُکا ہی نہیں
تم نبھاتے ہو دل تو نبھاتے ہو کیا
درمیاں جب کہ عہدِ وفا ہی نہیں

0
28
مسجد میں آئی ساقی کی یاد
مے خانے میں خدا یاد آیا
جب سے ہم بھول گئے خود کو
جانے پھر کیا کیا یاد آیا

0
19
اسی دریا میں جس سے ڈرتے ہیں آپ
سو دفعہ کی ہے خود کشی ہم نے
اک تمنا تھی وصل کی شاید
وہ تمنا بھی چھوڑ دی ہم نے

0
31
تیرے جانے کا غم نہیں ہے مجھے
ہجر کا غم بھی کم نہیں ہے مجھے

0
24
ہم کو معلوم تھا کہ تو نہیں آئے گا
اس بار تو ہمیں اتنظار اپنا بھی تھا

0
23
دل کی باتوں کو چھپانا چھوڑ دو
آؤ اب اظہار کا رستہ کریں
آپ کے ہاتھوں میں میرے ہاتھ ہوں
چاندنی میں ہم کہیں کھویا کریں
اپنوں کی اس اجنبی نگری میں اب
کس سے ملیے، کس سے کیا شکوہ کریں

0
24
جا آج کے بعد تمہیں بھی ہم کوئی خواب ہی سمجھیں گے
جا آج کے بعد تمہارے خواب نہیں دیکھیں گے ہم

0
23
گم ہوئے وقت کی ایسی گلیوں میں ہم
ڈھونڈنے پر بھی خود کو نہیں ملتے ہیں
جو بچھڑ جاتے ہیں وقت کی راہوں پر
پھر کہیں بھی وہ رہ رو نہیں ملتے ہیں

0
19
وہ محبت سے ڈر نہ جائے کہیں
فیصلہ کوئی کر نہ جائے کہیں
دور مجھ سے رہو کہ تجھ میں بھی
رنگ اداسی کا بھر نہ جائے کہیں

0
21
زمانے سے پڑے سوکھے گلاب دیکھو گی
کوئی کتاب پڑھو گی تو یاد آؤں گا
کبھی محبتوں کی الجھی الجھی راہوں پر
جو تنہا تنہا چلو گی تو یاد آؤں گا

0
26
لوگ تو بس گزر جاتے ہیں
سائے لیکن ٹھہر جاتے ہیں
پھر وہ جذبے کدھر جاتے ہیں
لوگوں کی طرح مر جاتے ہیں
جانے وہ کیسی ہے اب کہ ہم
خواب میں روز ڈر جاتے ہیں

0
48
جانے پھر کس کے ہوئے وہ باغ محبت کے
مرے حصے میں تو آئے بس داغ محبت کے

33
آکاش میں بھی گونجتے ہیں گیت پیار کے
آؤ پیا کہ آئے ہیں وہ دن بہار کے
یہ دن وہیں ہیں جن کا ہمیں انتظار تھا
موسم گزر گئے ہیں سبھی انتظار کے

0
34
تھا گماں جس کا مجھے وہ گماں تھا ہی نہیں
کچھ ہمارے یعنی کچھ درمیاں تھا ہی نہیں
حالتِ دل کیا کہوں اک عجب سا قصہ ہے
دل جہاں بھی تھا وہاں خوش گماں تھا ہی نہیں

0
23
جو ہمارا تھا ہی نہیں اسے بھی
کبھی خود سے جدا نہیں کر پائے
جانے ہم کیسے آدمی گزرے
ہم کسی کو خدا نہیں کر پائے

0
34
خا ک اڑتی ہے گزرے لمحوں کی
دھوپ پہ چھاؤں رکتی نہیں ہے

0
22
آنکھوں کو آیا ہے یقیں لیکن
میرا دل مانتا نہیں لیکن
تو یہاں سے چلا گیا تو کیا
تو ہے پھر بھی یہیں کہیں لیکن
زخم تازہ ہیں آج بھی دل کے
وقت مرہم سہی، نہیں لیکن

0
57
وہ کسی شام آتی نہیں لیکن
یاد اس کی ہر شام آتی ہے
ہم ایسے شب زادوں کو رات
ایسی اداسی کام آتی ہے
زخمِ شوق پہ کہنے کو لیکن
ایک تسلی مدام آتی ہے

27
رات بھر مجھ کو جگاتی ہے وہ خوابوں کی مہک
گیت الفت کے سناتی ہے وہ خوابوں کی مہک
کاش دیکھوں اس کو خوابوں سے نکل کر ایک بار
مجھ کو خوابوں میں ستاتی ہے وہ خوابوں کی مہک
یہ گماں ہوتا ہے ہر پل، وہ یہیں ہے، میرے پاس
خواب بھی کیسے دکھاتی ہے وہ خوابوں کی مہک

57
کئی ہفتوں سے کوئی میسج کوئی کال نہیں
اس پتھر دل کو میرا ذرا بھی خیال نہیں
اس نے وہ خط لینے سے بھی انکار کیا
جس میں میں نے لکھا تھا مجھے کوئی ملال نہیں

0
31
جو زندگی جینی تھی وہ جی ہی نہیں
کیا کرتا تو جو ہم سفر تھی ہی نہیں
یہ قصہ جو تھا ہجر کا قصہ تھا بس
یہ زندگی تو زندگی تھی ہی نہیں
کرتا تو کس منھ سے گلہ کرتا بھلا
جب بات ایسی بھی کوئی تھی ہی نہیں

55
میں نے ہر بات کو معنی سے جدا رکھا ہے
زندگی بھر یہ تماشا ہی بپا رکھا ہے
آدمی اپنے ہی سائے سے پریشان رہا
کیا عجب کھیل یہ دنیا نے رچا رکھا ہے
خود سے بیزار ہوں، خود سے ہی گریزاں بھی ہوں
میں نے ہر درد کو اپنا ہی سزا رکھا ہے

0
34
خوابوں کی تربتوں پر گل جو کھلیں گے جاناں
ان کی خوشبو سے نئے خواب بُنیں گے جاناں
ساتھ تھے تو جی رہے تھے بڑی مشکل سے مگر
اب تمہارے بنا ہم کیسے جئیں گے جانا
جب کبھی دہر سے فرصت ملے تو آ جانا
دل کی پگڈنڈیوں پر ساتھ چلیں گے جاناں

0
67
تم سے بچھڑ کے جینے کی کوشش تو کی ہے
پر ہر سانس میں تیری کمی محسوس ہوئی ہے

0
23
جو ساتھ ساتھ ہم نے لمحے گزارے تھے
وہ چار لمحے آخر کب تک گزاروں گا

0
21
کسی سے عکسِ حقیقت چھپا نہ پاؤں گا
میں اپنے نقشِ قدم کس طرح مٹاؤں گا

0
26
تری گزاری ہوئی کوئی شام ہوں جاناں
پرانا قصہ ہوں لیکن تمام ہوں جاناں
ترے فراق کا میں زہر پی کے مر جاؤں؟
جو تیرا حکم، میں تیرا غلام ہوں جاناں
میں کیسے خود کو سنواروں میں کیسے خود کو چھوؤ
تمہارے بعد میں خود پر حرام ہوں جاناں

0
67
یادِ کے شہر میں کھو گیا دل مرا
تیری دہلیز پر سو گیا دل مرا
شوق کے دشت میں دیکھتے دیکھتے
بوجھ سو ہجر کا ڈھو گیا دل مرا
دن کسی طور اس نے گزارا مگر
رات جب آئی تو رو گیا دل مرا

0
37
میرے بدن میں گھلتا جا رہا ہے
پھر جاں ستاں تیری تمنا کا زہر
وہ جو نکلتا ہی نہیں تھا گھر سے
گم ہو گیا وہ شخص جانے کس شہر
جانے مجھے کیا ہو گیا ہے یارو
اب چین پڑتا ہی نہیں کسی پہر

0
30
بھجی بھجی سی شام اور اداس اداس در و بام
خفا خفا ہے رات جب سے روٹھا مجھ سے میرا چاند
ازل کا بدنصیب تھا سحر کو کیا پہنچتا میں
کہ نصف شب کے دشت میں ہی بچھڑا مجھ سے میرا چاند

0
26
اداس شاموں کے قصے وہ بکھرے بکھرے خواب
تمہیں بتاؤ کیا کیا لکھوں اے جانِ غزل
محبتوں کے سفر پر تری تمنا لیے
وہ گزرا اس دل پر کیا کہوں اے جانِ غزل

0
30
میں مر چکا ہوں یہ احساس کب ہوا مجھ کو
کہیں دکھے نہیں میرے ہی نقشِ پا مجھ کو
عجیب حال تھا، آواز بھی نہ دی میں نے
بس ایک شخص گیا اور لے گیا مجھ کو
اداس شامیں، وہ یادیں، وہ خواب، وہ آہیں
یہ عمر بھر کی رفاقت میں کیا ملا مجھ کو؟

0
28
تیری یادوں کا روشن ہونے تک یونہی اشک بہاؤں گا
میں اس نفرت بھرے صحرا میں الفت کے پیڑ لگاؤں گا

0
26
احسان آخری یہ بھی کر جانا چاہیے
اب تم کو میرے دل سے اتر جانا چاہیے
میں ہوں وہیں کھڑا جہاں وہ چھوڑ گیا
اس وقت کو تو کب کا گزر جانا چاہیے
اک تیرے ہجر کے لیے سو ہجر کاٹے ہیں
اب تو وہ زخم یاد کا بھر جانا چاہیے

49
کئی رستوں سے دل کو ہار کر جانم
کئی رستوں پہ تیری انتظاری ہے
تری فرقت میں ظالم کیا بتاؤں میں
قیامت جیسی دل کو بے قراری ہے

0
22
پھول دیکھتا ہوں تو اس کی یاد آتی ہے
اس کی خوشبو ایسی تھی اس کا نام ایسا تھا
اس کو سوچتا ہوں تو مے کدے میں ہوتا ہوں
اس کی آنکھیں ایسی تھیں اس کا جام ایسا تھا

38
دیکھ آیا جہاں اب کہاں جاؤں گا
رازداں مہرباں اب کہاں جاؤں گا
بول اے باغباں اب کہاں جاؤں گا
آئی ہے پھر خزاں اب کہاں جاؤں گا
تیرے نقشِ پا تو بس یہیں تک ہی تھے
کچھ بتا جانِ جاں اب کہاں جاؤں گا

0
44
سرِ بام تھا میرے خوابوں کا چاند آج
مہکتے رہے سارے من کے دریچے
برستے رہے یادوں کے گہرے بادل
سحر تک کھلے تھے سخن کے دریچے

0
19
سارا سفر بس اسی خیال میں گزرا
اگلے قدم پر تمہارا سامنا ہوگا

24
گزرے دِنوں میں جانِ جاں تم کون تھے میں کون تھا
کچھ یاد کر وہ داستاں تم کون تھے میں کون تھا
جو مرتے تھے اک دوجے پر بے چین رہتے رات بھر
آخر ہوئے جو رائگاں تم کون تھے میں کون تھا
جن کے دلوں کی دھڑکنیں اب جم گئیں ہیں سردی سے
جو ساتھ تھے پچھلی خزاں تم کون تھے میں کون تھا

68
مرے دل پر بھی چھالے پڑ گئے ہیں
سفر یہ جانِ جاں کب تک چلے گا
کسی رہ رو سے بس یہ پوچھنا تھا
یہ دل کا کارواں کب تک چلے گا

0
29
کسی بھولے بسرے خواب کی صورت دھیمے سے
کسی شب میری آنکھوں میں اتر کے تو دیکھو
جن راہوں سے کبھی تھا تیرا آنا جانا
کبھی ان ویراں راہوں سے گزر کے تو دیکھو

0
26
اپنی ہی دھن میں مست خواب کوئی
پھرتا ہے خانماں خراب کوئی
اس نے جب مسکرا کے دیکھا تو
شاخِ دل پر کھلا گلاب کوئی
اس نے جو نظریں پھیر لیں ہم سے
آنکھوں سے روٹھا جیسے خواب کوئی

0
45
چلا ہے پھر عشق کے سفر پر
رکا نہ دن بھی دل اپنے گھر پر
نظر بھی ہلکان ہوتی ہوگی
نہ بوجھ بن کر رہو نظر پر
یہ دل کا قصہ ہے، دل کی باتیں
نہ رکھ دلیلیں کسی خبر پر

46
یادوں کا بوجھ ہم سے اٹھایا نہ جائے گا
دردوں کا گیت بھاری ہے گایا نہ جائے گا

0
20
مد مستی کی بہار میں ہوں
اک جادوئی خمار میں ہوں
تو میرے سامنے ہے لیکن
میں تیرے انتظار میں ہوں
مجھ سے میرا پتہ نہ پوچھو
کیا جانے کس دیار میں ہوں

0
38
اُمّیدِ دید لے کے امّیدوار آئے
دل کی گلی میں تم کو ہر سو پکار آئے
دل کے دریچے تیری خوشبو کے منتظر ہیں
آؤ کہ دل کی نگری میں بھی بہار آئے
اس دشتِ دردِ جاں میں اک لمحے کے لیے بس
آنکھوں کو تو نظر آ کہ دل کو قرار آئے

0
40
دردِ ہجراں عذاب ہے جانم
دل کی حالت خراب ہے جانم
تم حقیقت ہو میرے خوابوں کی
بس یہی میرا خواب ہے جانم
میں کہاں خود کو ڈھونڈنے جاؤں
تو ہی میرا جواب ہے جانم

0
45
پھر کھا گیا پت جھڑ بہار کے دن
کیا رنگ لائے انتظار کے دن
یہ زندگی ساری گزر گئی ہے
آئے نہ لیکن وہ قرار کے دن
یاد آتے ہیں کتنے تھے خوبصورت
وہ عشق کے ہائے وہ پیار کے دن

0
39
اس دسمبر کی آخری شب میں
خواب ٹوٹے ہوئے سمیٹتا ہوں
پیار سے سارے دل کی چادر میں
لمحے گزرے ہوئے سمیٹتا ہوں

0
24
تو ماضی تو ہی مستقبل ہمارا
تو ہی دریا تو ہی ساحل ہمارا
اگرچہ اب جدا ہیں ہم تو کیا ہو
ازل سے عشق تھا کامل ہمارا
جہاں ملتی ہیں بخشش میں وحشت
وہ ہے اک کوچئہ قاتل ہمارا

0
27
اک گلستاں مرے تصور کا
خوشبوئے یار سے مہک رہا ہے
جلتی آنکھوں میں بھی کنول سا پھول
اب بڑے پیار سے مہک رہا ہے

0
32
میں نے سوچا تھا مگر اتنا نہیں سوچا تھا
یہ محبت مجھے اس حد تک اذیت دے گی
دل تو پہلے ہی شکستہ تھا مگر کیا معلوم
زندگی اور نئی شکل کی وحشت دے گی

0
30
رات کی چاندنی برفوں پہ سنہری چھاپے
یہ ترا لمس ہے، یا خواب کوئی باقی ہے

0
29
دھوپ کی لو بھی یہاں ہاتھ ملے واپس جائے
برف میں تیرے بدن جیسی حرارت ہے کہاں
در بہ در دل نے مرے ڈھونڈا ہے نگری نگری
تیرے پہلو کی وہ نرمی وہ سہولت ہے کہاں

0
21
دل دکھانے کا کچھ بہانہ کرو
اُن سے پھر کوئی دوستانہ کرو
نہ فسانہ بنے حقیقت جب
پھر حقیقت کو ہی فسانہ کرو
غمزۂ جاں سِتاں دکھاؤ پھر
اس دوانے کو پھر دوانہ کرو

0
37
کتنی آنکھوں سے خون برسا
کتنے منظر بکھر گئے ہیں
کتنی آنکھیں ترس گئی ہیں
کتنے مقتل سنور گئے ہیں
کتنا دلکش ہے مقتلِ جاں
ہائےسفاک کی ادائیں

0
2
31
یہ بھی کیا وقت کے دھارے میں بہا ہوں میں بھی
ایک دن خود سے بھی شاید نہ ملا ہوں میں بھی
میں نے چاہا تھا کہ ہر بات تمہیں کہہ ڈالوں
پر عجب یہ ہے کہ خود تک بھی چھپا ہوں میں بھی
تم بھی حیران ہو، میں بھی ہوں پریشان بہت
جیسے تم ہو مری جاں ویسا ہوا ہوں میں بھی

0
33
اب یہ ممکن ہی نہیں خواب سجائے جائیں
وہ جو آنکھوں میں رہے، کیسے بھلائے جائیں
مر گیا ہوں میں، اداسی کا بسیرا ہے یہاں
جانے والے کبھی واپس نہ بلائے جائیں
یاد کا شور ہے خاموش ہیں یہ لب لیکن
تم نہ آؤ تو کہاں درد سنائے جائیں

0
35
اب کوئی چاند سرِ شام نہیں چمکے گا
مر گئے چاندنی میں لوگ نہانے والے
اب کوئی دستکِ امید نہیں ہوگی یہاں
لوگ بچھڑے ہوئے واپس نہیں آنے والے
وہ فقط پیار کے افسانوں میں ہی ملتے ہیں
اس جہاں میں نہیں ملتے ہیں نبھانے والے

0
35
میں ہر شام و سحر ہر پل
تمہیں آواز دیتا ہوں
میں تنہائی کے صحرا میں
عجب پرچھائیوں کا یوں تعاقب کرتے کرتے اب
نہ جانے کس جہاں میں گم
صدائیں دیتا ہوں تمہیں

0
25
دل بھی عجب سے خواب دیکھتا ہے
جلتے ہوئے گلاب دیکھتا ہے
ہر گام ایک گل بدن کے سائے
ہر موڑ پہ سراب دیکھتا ہے

0
23
شام ہی سے چپ بیٹھے ہو کیا ہوا کچھ تو بولو
بہت الجھے الجھے سے ہو کیا ہوا کچھ تو بولو
ترے چہرے پر اتر آئی ہے ہجر کی اداسی
تو پھر آج ان سے ملے ہو کیاہوا کچھ تو بولو

0
43
میں کیسے کہوں کن لفظوں میں کہوں کیا ہو تم
کسی دیوتا کا سایا ہو کہ خود دیوتا ہو تم
یہ وجود جو ہے اک لمبا فسانہ ہے جس کا
آغاز اگر میں ہوں لیکن انتہا ہو تم
موزاؔؔٹ کی اور نہ بیتھووؔؔن کی سمفنی ہو
اے میری مہک تم میرے دل کی راگنی ہو

0
49
چلتے ہیں سرد ہوا کے دھارے ڈل کے کنارے
تیرتے ہیں یادوں کے شکارے ڈل کے کنارے
جانے کس خوشبو کے سہارے ڈل کے کنارے
کب سے بیٹھے ہے ہجر کے مارے ڈل کے کنارے
تیرے بغیر بھی دیکھتا ہوں میں ساتھ تمہارے
مہکے مہکے سے شام نظارے ڈل کے کنارے

72
تیرے خیال کی چادر اوڑھے ڈل کے کنارے
جانے کب سے ہم ہیں بیٹھے ڈل کے کنارے
پھولوں سے اٹھتی ہے اس کے بدن کی خوشبو
رقصاں ہیں ہائے کتنے سائے ڈل کے کنارے
کتنے مسافرِ رفتگاں محوِ سیر و سیاحت
پھرتے ہیں دیکھو سائے سائے ڈل کے کنارے

0
27
یادیں کب تک سنبھال کر رکھتا
کسی دن اس کو بھول جانا تو تھا
دلوں نے گرچہ صبح دم توڑا
شام تک رشتہ یہ نبھانا تو تھا
ہم تھے مجبور وقت کے آگے
وقت نے ساز چھیڑا گانا تو تھا

0
29
کانٹے کو گل کہو گے کب تک
بے دردی میں ہنسو گے کب تک
یوں اس کی یاد کے کنارے
دکھ کے کنکر چنو گے کب تک
خود سے باہر نکل جہاں دیکھ
خود میں ہی گم رہو گے کب تک

0
47
درد کے ساتھ دل کے زخموں نے
لمس جاناں کی آرزو کی ہے
کہ تُجھے پہلے پالوں پھر کھو دوں
میں نے کیوں ایسی آرزو کی ہے؟

30
مرے خیالوں میرے خوابوں کی مہک
وہ تھی یا تھی کوئی گلابوں کی مہک
مرے اُداس کمرے کی فضا میں ہے
ترے بدن کی یا کتابوں کی مہک
کبھی تو یادیں کوئی ساز چھیڑیں گی
کبھی تو آئے گی وہ خوابوں کی مہک

0
33
ہاں تری یاد سے کچھ ربط تو ہے
پر کسی کی مجھے عادت تو نہیں
کتنی باتوں پہ گزر جاتی ہے
دل کی حالت پہ بھی حیرت تو نہیں

0
27
اسے ہے ایسی ویسی بات کا دکھ
مگر مجھ کو ہے اپنی ذات کا دکھ
جہاں بھی جاتا ہوں بس گھیرتا ہے
وہی گزرے ہوئے لمحات کا دکھ
کئی ہنگاموں سے گزرا ہوں میں بھی
نہیں دل سے گیا اس رات کا دکھ

0
67
خود پہ بیداد کر رہا ہوں میں
دل کو آباد کر رہا ہوں میں
خود کو تعمیر کرنے کے لیے ہائے
خود کو برباد کر رہا ہوں میں
ایک شیریں کے واسطے یارو
خود کو فرہاد کر رہا ہوں میں

0
38
میرے اندر سے جب گزر گیا وہ
پوچھو مت کتنا مجھ سے ڈر گیا وہ
اپنے وعدوں سے ہی مکر گیا وہ
مجھ کو کتنا اداس کر گیا وہ
وہ بہت دور تک چلا مرے ساتھ
جانے پھر کس گماں سے ڈر گیا وہ

0
56
مجھ کو تم اللہ کے واسطے تنہا نہ چھوڑو
میں تنہائی میں خود کو کھانے لگ جاتا ہوں
پہلے نچوڑتا ہوں یادوں سے سب اس کے رنگ
پھر اس کی تصویر بنانے لگ جاتا ہوں
میں تُجھ سے ہی نکلتا ہوں دریا کی صورت
تجھ میں ہی گم ہو کے ٹھکانے لگ جاتا ہوں

0
36
میں روشنی کے خواب سجائے ہوئے چلا
پھر وقت کی ہوا ہی بجھا لے گئی مجھے
میں بھی کسی یقین کے ساحل پہ تھا کھڑا
اک موجِ بے یقینی بہا لے گئی مجھے
خاموشیوں کے شہر میں بے خود تھا بیٹھا میں
اس اک مہک کی باد صبا لے گئی مُجھے

0
26
تم ساتھ تھے تو کتنا آساں تھا مگر
اب جانا ہے کتنا کٹھن ہے یہ سفر
جب سوچتا ہوں تو نہیں آتا یقین
کل تک میں ہی تھا تیرا منظورِ نظر

0
32
کچھ مہینوں میں سب خمار گیا
دین سے ہی، وہ دین دار گیا
دل تو اپنی گلی میں ہی رہیو
وہ بھروسہ وہ اعتبار گیا
دی زمانے کو تنہا میں نے شکست
ہے عجب خود سے ہی میں ہار گیا

37
عام کو خاص لکھ رہا ہوں میں
اپنا اتہاس لکھ رہا ہوں میں
لکھ رہا ہوں وجود کا قصہ
یعنی بکواس لکھ رہا ہوں میں
ہے سیاہی سے سارا کاغذ تر
قصۂ یاس لکھ رہا ہوں میں

54
خود سے بھی اب تو بدگماں ہوگی
کتنی بےزار وہ وہاں ہوگی
اپنی ہستی سے ہو کے وہ بیزار
گم کسی اور ہی جہاں ہوگی
خود کو کر کے فنا مرے اندر
اب وہ شاید کہیں نہاں ہوگی

45
میں تھا گمان و یقیں سے پہلے
اس آسماں سے زمیں سے پہلے
یہ سلسلہ ہے کہیں سے پہلے
ہمیں تھے ہر جا ہمیں سے پہلے
یہ داستانیں فنا کی سب ہیں
میں تھا بقا کے قریں سے پہلے

35
اپنے ہونے پہ مان تھا ہی نہیں
جو تھا اس کا بیان تھا ہی نہیں
نقش تھا پر مکان تھا ہی نہیں
کسی شے کا نشان تھا ہی نہیں
میں بھی جھوٹا تھا وہ بھی جھوٹی تھی
اور کچھ درمیان تھا ہی نہیں

29
فِتْنَۂِ خاص و عام تھا ہی نہیں
کہیں ایسا نظام تھا ہی نہیں
گزرے بے نام ہی جہاں گزرے
اپنا تو کوئی نام تھا ہی نہیں
تم نے تو عشق کام سمجھا تھا
عشق تو کوئی کام تھا ہی نہیں

38
مجنوں فرہاد سارے مارے گئے
عشق کے وہ زمانے پیارے گئے
خواب خوابوں طرح سنوارے گئے
پھر بڑی بے دلي سے مارے گئے
بے سبب جس میں ہم ہی مارے گئے
جرم آخر وہ سر ہمارے گئے

38
آنکھوں میں کوئی خواب تھا ہی نہیں
شکر ہے اضطراب تھا ہی نہیں
وہ فسانے فقط فسانے تھے
کوئی اہلِ کتاب تھا ہی نہیں
اُس گمانِ گماں کے عالم میں
وہ یقیں کا شراب تھا ہی نہیں

0
44
جب درد حد سے بڑھ جائے تو رو لینا چاہئے
دل کے بنجر کو آنسوں سے بھگو لینا چاہئے
ایسے اجنبی شہر کی اجنبی سی سرد راتوں میں
آنکھوں میں کوئی خواب نہ ہو تو سو لینا چاہئے

29
کھلے آسمانوں کا یہ رشتہ قفس لگے
دل اتنا نہ چاہو کہ محبت ہوس لگے
اے میرے شبِ غم کے اندھیرو رکو ذرا
پھر اتنا نہ الجھاؤ کہ لمحہ برس لگے

0
18
جسم اتنے تھے کوئی سایا نہیں
میں نے بھی سو کسی کو پایا نہیں
میں کسی دشت کی طرف گیا تھا
اور پھر لوٹ کر میں آیا نہیں
عمر بھر خود کو ڈھونڈتا رہا میں
عمر بھر خود کو میں نے پایا نہیں

36
میرے دل سے اتر گئی ہوگی
پھر نہ جانے کدھر گئی ہوگی
وہ جو تھی خواب سی شفق زادی
کس کی شب صبح کر گئی ہوگی
دور جا کر ذرا سنبھل کر وہ
مجھ پہ الزام دھر گئی ہوگی

0
58
کیا حال پوچھتے ہو، بھلا کیا بتائیں ہم
ہر پل الم، ہر ایک نظر انتظار ہے
سب کچھ فنا ہوا ہے مگر ایک بات ہے
اب تک کہیں خیال میں وہ شخص یار ہے

0
33
کیسے کہوں گزرا ہے کیا کیا میرے ساتھ
میرا مقدر جب سے الجھا میرے ساتھ
ویسے بھی اس صحرا میں کرنا تھا سفر
کیا اچھا رہتا تو جو چلتا میرے ساتھ
مجھ سے جھگڑتا اور لڑتا میرے ساتھ
پر کیوں کیا ہے اس نے ایسا میرے ساتھ

59
غم کی صورت بدل گئی ہوگی
رات شاید ہی ڈھل گئی ہوگی
درد کو حرف میں سجانے کی
شوق کی بات ٹل گئی ہوگی
وہ وہ بھی میرے جسم کی دیوار
چڑھتے چڑھتے پھسل گئی ہوگی

82
قربتِ یار کھل رہی ہوگی
یا ارادہ بدل رہی ہوگی
ایسے خوش فہمیوں کے جنگل میں
اک غلط فہمی پل رہی ہوگی
خود سے ملنے کی آرزو میں وہ
خود سے باہر نکل رہی ہوگی

88
باتوں باتوں میں کوئی بات نکل جاتی ہے
یہ کہانی بھی کئی موڈ بدل جاتی ہے
راتوں کو اٹھ کے نہ جانے وہ کسے سوچتا ہے
سوچتے سوچتے یہ رات نکل جاتی ہے

30
یہ معاشرہ تو ہے خداؤں کا معاشرہ
میرا اس معاشرے سے کوئی واسطہ نہیں
اس خرابے میں کوئی جگہ نہیں مرے لیے
اے شریکِ حال کیا یہ کوئی حادثہ نہیں
اس فسانے میں فقط تیرے ہی فسانے ہیں
میرے درد کا یہاں کوئی تذکرہ نہیں

0
40
زندگی درد کے کوچے میں گزاری ہم نے
اب کوئی اور تماشا ہمیں زندہ رکھے
کیا عجب شخص تھا، خوابوں میں ملا تھا مجھ کو
اب حقیقت میں بھی بس دور کا رشتہ رکھے

39
رسمِ دنیا ہی نبھاتے جائیے
غم چھپا تے مسکراتے جائیے
ہم جو ہیں، بس ایک خوابِ بے طلب
آپ بھی خوابوں میں آتے جائیے
دنیا سے کیا ہی شکایت ہو کہ اب
اپنا سایہ بھی ہٹاتے جائیے

38
دیکھا جو میں نے خواب کوئی معتبر کہیں
آیا نہ اس کا دل سے مگر وہ اثر کہیں
دل تیرا بھی ملال بجا ہے مگر سنو
میں کیا کروں کہ ملتا نہیں وہ اگر کہیں
تڑپے ہے دل وہی، وہی آشوبِ جاں کا حال
ملتی نہیں قرار کی کوئی خبر کہیں

63
زندگی کا نہ ہے زمانے کا
بس گلہ ہے ترا نہ آنے کا
ہم کہیں کے نہیں رہے دیکھو
یہ نتیجہ ہے دل لگانے کا
تو نے چہرہ بدلنا سیکھا ہے
تو بھی اب ہو گیا زمانے کا

57
زندگی کی راہوں پر
ہم نے کئی راستے چنے،
کئی باغوں اور صحراؤں سے گزرے
مگر ہر موڑ پر
اک نیا سوال کھڑا تھا،
اک نیا دھندلا منظر

0
36
یہ کیا ہے جو دل کے دریچوں پہ
اک بوجھ سا ٹھہر گیا ہے
جیسے بے صدا شام کا سایہ
ہر احساس پر چھا گیا ہے
آہ!
دل کی ویرانی میں،

0
32
وہ لمحہ جب وہ بچھڑا،
یوں لگا جیسے کوئی کہانی
اپنے انجام سے پہلے ہی ٹوٹ گئی ہو،
جیسے کوئی موسیقی کا راگ
ایک نکتہ پر آ کر رُک گیا ہو
اور سازوں میں خاموشی

29
صدیوں پہلے،
جب وقت نے پہلا سانس لیا،
محبت کا بیج بویا گیا،
نرم دلوں کی زمین پر،
آنکھوں کی چمک میں،
ہونٹوں کی ہلکی لرزش میں،

35
راتیں پاگل کر دیتی ہیں،
جب آسمان کی چادر پر
چاند کے پھیلتے دھبے
اور ستاروں کی بجھتی ہوئی روشنی
دل کو چھو لیتی ہے۔
یہ خاموشی،

0
28
اس گلی میں
جہاں دھول اڑتی ہے
ہوا کے نرم جھونکے
دیواروں کو چھو کر
کبھی رک جاتے ہیں، کبھی گزر جاتے ہیں
پرانے دروازے

0
27
جہلم کے کنارے
چلتے چلتے
ہم دونوں
خاموش تھے،
مگر دلوں میں طوفان تھا
شاید وہ لمحہ

34
میں خود میں اتر کے تھک گیا ہوں
جاں کا خلا بھر کے تھک گیا ہوں
وہ جو تھی حَویلی دل کی اس کو
برباد میں کر کے تھک گیا ہوں
خواہش تھی کہ کوئی راہ نکلے
ہر موڑ پہ مر کے تھک گیا ہوں

0
49
خیالِ یار میں ہم بے خیال ہی پھرے ہیں
جب اس گلی سے اُٹھے پھر گلی گلی پھرے ہیں
اکیلا تو نہیں پھرتا رہا میں دھوپ کے شہر
سفر میں ساتھ مرے میرے سائے بھی پھرے ہیں
نہ پوچھو شام و سحر کیسے ہم برہنہ پا
تری تمنا لیے دشتِ تشنگی پھرے ہیں

82
آج کچھ بات کرنے آئے تھے
دن میں ہی رات کرنے آئے تھے
جسمِ خاکی اتار کر سرِ طور
اک ملاقات کرنے آئے تھے
آپ تو بس خموش بیٹھے ہو
ہم تو کچھ بات کرنے آئے تھے

65
سرِ شامِ ہجر دِوانے گھر تو نہیں گئے
ذرا دیکھ تو لو کہیں وہ مر تو نہیں گئے
چلو مان لیتے ہیں خاک ہوکے ہی آئے ہیں
مگر اپنے وعدے سے ہم مکر تو نہیں گئے
کسی رات سے مجھے دشتِ ذات میں لائے ہیں
ترے ہجر جانِ جاں بے اثر تو نہیں گئے

89
کوئی منزل نہ رہ گزر مجھ میں
بے سفر کرتا ہے سفر مجھ میں
شاخِ جاں پر کھلے ہیں وجد کے پھول
اس نے یوں کر لیا ہے گھر مجھ میں
یا تو کچھ بھی نہیں رہا باقی
یا سمٹ آیا بحر و بر مجھ میں

0
2
106
وہ راتیں کیا ہوئیں مہتاب کیا ہوئے
شبِ فراق کے وہ باب کیا ہوئے
مجھے بتا اے دلِ بے قرار تو
وہ نیند کیا ہوئی وہ خواب کیا ہوئے
یہ دشت تو ابھی بھی دشت ہیں مگر
جو باغ تھے کبھی شاداب کیا ہوئے

0
45
تنہا جب ہجر کی تاریکی سے ڈرتا ہوگا
بات پھر رات وہ دیواروں سے کرتا ہوگا
جانے اب کس کے لیے کھڑکی وہ کھلتی ہوگی
جانے اب اس گلی سے کون گزرتا ہوگا
اور کیا ہونا تھا اسکے چلے جانے کے بعد
کل بھی مرتا تھا وہ سو آج بھی مرتا ہوگا

0
80
ہم تھے ہونے کی واردات میں کیا؟
گُل یہی کِھلنے تھے حیات میں کیا؟
جب کِھلا تھا مِرے وجود کا پھول
تو اسی دم تھا کائنات میں کیا؟
جتنے صحرا تھے سب گزر گئے ہیں
ابھی بھی کچھ ہے دشتِ ذات میں کیا؟

126
آئے دن ان سے ملاقات ہوا کرتی تھی
فون پر بات بھی دن رات ہوا کرتی تھی
اب تو سمجھانے سے بھی بات سمجھتی نہیں وہ
آنکھوں ہی آنکھوں میں جو بات ہوا کرتی تھی
چلتے چلتے یونہی جہلم کے کنارے بیٹھے
ہاتھوں میں ہاتھ لیے رات ہوا کرتی تھی

110
آنکھیں جل جائیں اور جواں خوابوں کو آگ لگے
دل کی جھوٹی دنیا فنا ہو، احساسوں کو آگ لگے
اب دنیا کی ہر شے سے بیزار اس دل کو کیا مطلب
یہ چاند ستارے خواب ہوں، سیاروں کو آگ لگے
اب میرے گھر سے ایسا وحشت کا موسم گزرے
ان کھڑکیوں کو طوفاں لے اُڑے دروازوں کو آگ لگے

0
64
حقیقت جان کے بھی خواب دیکھے ہیں
اندھیری نگری میں مہتاب دیکھے ہیں
اسی دریا کنارے میں بھی رہتا ہوں
مری آنکھوں نے بھی سیلاب دیکھے ہیں
خزاں کی رُت میں بھی دل دشت میں ہر سوں
اُمیدوں کے شجر شاداب دیکھے ہیں

57
آگ کی طرح تن بدن کھا گیا
مجھ کو میرا ہی خالی پن کھا گیا
دیکھ لو کوئی ہجر کا پت جھڑ
کیسے خوابوں کا اک چمن کھا گیا
میں نہ ہونے کے حال میں تھا مگر
مجھ کو ہونے کا بانکپن کھا گیا

80
صبح ہی شام کا منظر ہوا دل
اک گلستان سے کھنڈر ہوا دل
مجھ سے مت پوچھو مری بے تابی
وہ نظر کیا اٹھی ساغر ہوا دل
حسن کی گرہیں کھلیں پے در پے
ایک مدت میں شناور ہوا دل

96
چھوٹی چھوٹی باتوں پر کسمسانا چھوڑ دے
زِندگی جینی ہے تو روٹھ جانا چھوڑ دے
ہر فسانہ جھوٹ ہے ہر زمانہ دھوکہ ہے
آتی جاتی رت سے دل! دل لگانا چھوڑ دے
اندھوں کے اس شہر میں سن کسی کو کیا خبر
تو بھی اپنے آپ سے منھ چھپانا چھوڑ دے

0
43
پھول سی باتیں پھول سا لہجہ
کتنا دلکش ہے آپ کا لہجہ
لب ہیں ایسے کہ ٹہنی پر ہوں گلاب
اس پہ پھر یہ بہار سا لہجہ
کب شَبستانِ ہجر میں دیکھا
ہم نوا ساز ہم نوا لہجہ

46
دل میں وہ شوق بھی نہیں آنکھوں میں خواب بھی نہیں
ہائے وہ پہلا سا جنوں وہ اضطراب بھی نہیں
ہاں خواہشوں کی جنگ میں ہے یہ جگر لہو لہو
حالت خراب ہے مگر حالت خراببھی نہیں
دیکھو کہ جس کی چھاؤں میں ہے ہجر کاٹنا مجھے
اس کالے آسمان پر وہ آفتاب بھی نہیں

0
43
جانے کہاں سے آتی ہے بے چینی صبح صبح
بیگانے درد کرتے ہیں سرگوشی صبح صبح
شب تو گزاری تھی کسی امید پر مگر
پھیلی گھنی اداسی کی تاریکی صبح صبح
گزری تھی شب بھی ہاں اسی بربادی میں مگر
چھیڑا ہے دل نے نغمئہ بربادی صبح صبح

0
41
کب تک خاموش رہوں گا کبھی تو چیخوں گا چلاؤں گا
ساری زنجیریں توٹیں گی پنجرے سے آزاد ہو جاؤں گا
یوں سدا اس آوارہ نگری میں آوارہ تو نہیں پھروں گا
کبھی تو دیوانگی ڈھلکے گی کبھی تو میں ہوش میں آؤں گا
کب تک ناگن ڈستی رہے گی پل پل رگِ جاں کستی رہے گی
کبھی تو یہ گردشِ زہر رکے گی کبھی تو میں مر جاؤں گا

0
71
وہ شکل تھی خواب سی کوئی خواب تھا جنوں سا
یا وہ حقیقت تھی یا یونہی چھایا تھا فسوں سا
نہ وقت کے ساتھ درد کی شورشیں ہوئی کم
وہی فسانہ ہے برپا گزرے ہوئے دنوں سا
وہ کون تھا میرا کیا مراسم تھے میرے اس سے
کسے کہیں کون سمجھے یارانہ دشمنوں سا

42
مجھ سا اک شخص ہو بہ ہو مجھ میں
کرتا ہے میری جستجو مجھ میں
خود سے بھی دور میں چلا آیا
اب نہیں کوئی آرزو مجھ میں
روشنی کا نشاں بھی باقی نہیں
پھیلی ہے رات کو بہ کو مجھ میں

0
74