Circle Image

mir shahryaar

@shahryaar

خواب میں الجھاؤ مت خواب دکھاؤ مت
تتلی کو دور سے سرخ گلاب دکھاؤ مت
تم نے اگر نہیں ہے اے ساقی پلانی تو پھر
ایسے شرابی کو پھر یہ شراب دکھاؤ مت

0
6
تم سے مل کر کچھ ہم بھی پھر بے باک ہو گئے
جتنے بھی دل میں ڈر تھے سارے خاک ہو گئے

0
7
مختصر غم کا قصہ ہُوا ہی نہیں
دل مسافر کہیں پر رُکا ہی نہیں
تم نبھاتے ہو دل تو نبھاتے ہو کیا
درمیاں جب کہ عہدِ وفا ہی نہیں

0
9
مسجد میں آئی ساقی کی یاد
مے خانے میں خدا یاد آیا
جب سے ہم بھول گئے خود کو
جانے پھر کیا کیا یاد آیا

0
8
اسی دریا میں جس سے ڈرتے ہیں آپ
کئی دفعہ کی خود کشی میں نے
اک تمنا تھی تیری قربت کی
وہ تمنا بھی چھوڑ دی میں نے

0
11
تیرے جانے کا غم نہیں ہے مجھے
ہجر کا غم بھی کم نہیں ہے مجھے

0
9
ہم کو معلوم تھا کہ تو نہیں آئے گا
اس بار تو ہمیں اتنظار اپنا بھی تھا

0
11
دل کی باتوں کو چھپانا چھوڑ دو
آؤ اب اظہار کا رستہ کریں
آپ کے ہاتھوں میں میرے ہاتھ ہوں
چاندنی میں ہم کہیں کھویا کریں
اپنوں کی اس اجنبی نگری میں اب
کس سے ملیے، کس سے کیا شکوہ کریں

0
11
جا آج کے بعد تمہیں بھی ہم کوئی خواب ہی سمجھیں گے
جا آج کے بعد تمہارے خواب نہیں دیکھیں گے ہم

0
9
گم ہوئے وقت کی ایسی گلیوں میں ہم
ڈھونڈنے پر بھی خود کو نہیں ملتے ہیں
جو بچھڑ جاتے ہیں وقت کی راہوں پر
پھر کہیں بھی وہ رہ رو نہیں ملتے ہیں

0
8
وہ محبت سے ڈر نہ جائے کہیں
فیصلہ کوئی کر نہ جائے کہیں
دور مجھ سے رہو کہ تجھ میں بھی
رنگ اداسی کا بھر نہ جائے کہیں

0
10
زمانے سے پڑے سوکھے گلاب دیکھو گی
کوئی کتاب پڑھو گی تو یاد آؤں گا
کبھی محبتوں کی الجھی الجھی راہوں پر
جو تنہا تنہا چلو گی تو یاد آؤں گا

0
16
لوگ تو بس گزر جاتے ہیں
سائے لیکن ٹھہر جاتے ہیں
پھر وہ جذبے کدھر جاتے ہیں
لوگوں کی طرح مر جاتے ہیں
جانے وہ کیسی ہے اب کہ ہم
خواب میں روز ڈر جاتے ہیں

0
26
جانے پھر کس کے ہوئے وہ باغ محبت کے
مرے حصے میں تو آئے بس داغ محبت کے

19
آکاش میں بھی گونجتے ہیں گیت پیار کے
آؤ پیا کہ آئے ہیں وہ دن بہار کے
یہ دن وہیں ہیں جن کا ہمیں انتظار تھا
موسم گزر گئے ہیں سبھی انتظار کے

0
14
تھا گماں جس کا مجھے وہ گماں تھا ہی نہیں
کچھ ہمارے یعنی کچھ درمیاں تھا ہی نہیں
حالتِ دل کیا کہوں اک عجب سا قصہ ہے
دل جہاں بھی تھا وہاں خوش گماں تھا ہی نہیں

0
12
جو ہمارا تھا ہی نہیں اسے بھی
کبھی خود سے جدا نہیں کر پائے
جانے ہم کیسے آدمی گزرے
ہم کسی کو خدا نہیں کر پائے

0
21
خا ک اڑتی ہے گزرے لمحوں کی
دھوپ پہ چھاؤں رکتی نہیں ہے

0
10
آنکھوں کو آیا ہے یقیں لیکن
میرا دل مانتا نہیں لیکن
تو یہاں سے چلا گیا تو کیا
تو ہے پھر بھی یہیں کہیں لیکن
زخم تازہ ہیں آج بھی دل کے
وقت مرہم سہی، نہیں لیکن

0
34
وہ کسی شام آتی نہیں لیکن
یاد اس کی ہر شام آتی ہے
ہم ایسے شب زادوں کو رات
ایسی اداسی کام آتی ہے
زخمِ شوق پہ کہنے کو لیکن
ایک تسلی مدام آتی ہے

17
رات بھر مجھ کو جگاتی ہے وہ خوابوں کی مہک
گیت الفت کے سناتی ہے وہ خوابوں کی مہک
کاش دیکھوں اس کو خوابوں سے نکل کر ایک بار
مجھ کو خوابوں میں ستاتی ہے وہ خوابوں کی مہک
یہ گماں ہوتا ہے ہر پل، وہ یہیں ہے، میرے پاس
خواب بھی کیسے دکھاتی ہے وہ خوابوں کی مہک

39
کئی ہفتوں سے کوئی میسج کوئی کال نہیں
اس پتھر دل کو میرا ذرا بھی خیال نہیں
اس نے وہ خط لینے سے بھی انکار کیا
جس میں میں نے لکھا تھا مجھے کوئی ملال نہیں

0
21
جو زندگی جینی تھی وہ جی ہی نہیں
کیا کرتا تو جو ہم سفر تھی ہی نہیں
یہ قصہ جو تھا ہجر کا قصہ تھا بس
یہ زندگی تو زندگی تھی ہی نہیں
کرنے تھے کچھ اس سے گلے شکوے مگر
اب تو کہیں وہ لڑکی ملتی ہی نہیں

35
میں نے ہر بات کو معنی سے جدا رکھا ہے
زندگی بھر یہ تماشا ہی بپا رکھا ہے
آدمی اپنے ہی سائے سے پریشان رہا
کیا عجب کھیل یہ دنیا نے رچا رکھا ہے
خود سے بیزار ہوں، خود سے ہی گریزاں بھی ہوں
میں نے ہر درد کو اپنا ہی سزا رکھا ہے

0
18
خوابوں کی تربتوں پر گل جو کھلیں گے جاناں
ان کی خوشبو سے نئے خواب بُنیں گے جاناں
ساتھ تھے تو جی رہے تھے بڑی مشکل سے مگر
اب تمہارے بنا ہم کیسے جئیں گے جانا
جب کبھی دہر سے فرصت ملے تو آ جانا
دل کی پگڈنڈیوں پر ساتھ چلیں گے جاناں

0
45
تم سے بچھڑ کے جینے کی کوشش تو کی ہے
پر ہر سانس میں تیری کمی محسوس ہوئی ہے

0
11
جو ساتھ ساتھ ہم نے لمحے گزارے تھے
وہ چار لمحے آخر کب تک گزاروں گا

0
10
کسی سے عکسِ حقیقت چھپا نہ پاؤں گا
میں اپنے نقشِ قدم کس طرح مٹاؤں گا

0
12
تری گزاری ہوئی کوئی شام ہوں جاناں
پرانا قصہ ہوں لیکن تمام ہوں جاناں
ترے فراق کا میں زہر پی کے مر جاؤں؟
جو تیرا حکم، میں تیرا غلام ہوں جاناں
میں کیسے خود کو سنواروں میں کیسے خود کو چھوؤ
تمہارے بعد میں خود پر حرام ہوں جاناں

0
41
یادِ کے شہر میں کھو گیا دل مرا
تیری دہلیز پر سو گیا دل مرا
شوق کے دشت میں دیکھتے دیکھتے
بوجھ سو ہجر کا ڈھو گیا دل مرا
دن کسی طور اس نے گزارا مگر
رات جب آئی تو رو گیا دل مرا

0
22
میرے بدن میں گھلتا جا رہا ہے
پھر جاں ستاں تیری تمنا کا زہر
وہ جو نکلتا ہی نہیں تھا گھر سے
گم ہو گیا وہ شخص جانے کس شہر
جانے مجھے کیا ہو گیا ہے یارو
اب چین پڑتا ہی نہیں کسی پہر

0
18
بھجی بھجی سی شام اور اداس اداس در و بام
خفا خفا ہے رات جب سے روٹھا مجھ سے میرا چاند
ازل کا بدنصیب تھا سحر کو کیا پہنچتا میں
کہ نصف شب کے دشت میں ہی بچھڑا مجھ سے میرا چاند

0
15
اداس شاموں کے قصے وہ بکھرے بکھرے خواب
تمہیں بتاؤ کیا کیا لکھوں اے جانِ غزل
محبتوں کے سفر پر تری تمنا لیے
وہ گزرا اس دل پر کیا کہوں اے جانِ غزل

0
18
میں مر چکا ہوں یہ احساس کب ہوا مجھ کو
کہیں دکھے نہیں میرے ہی نقشِ پا مجھ کو
عجیب حال تھا، آواز بھی نہ دی میں نے
بس ایک شخص گیا اور لے گیا مجھ کو
اداس شامیں، وہ یادیں، وہ خواب، وہ آہیں
یہ عمر بھر کی رفاقت میں کیا ملا مجھ کو؟

0
19
تیری یادوں کا روشن ہونے تک یونہی اشک بہاؤں گا
میں اس نفرت بھرے صحرا میں الفت کے پیڑ لگاؤں گا

0
12
احسان آخری یہ بھی کر جانا چاہیے
اب تم کو میرے دل سے اتر جانا چاہیے
میں ہوں وہیں کھڑا جہاں وہ چھوڑ گیا
اس وقت کو تو کب کا گزر جانا چاہیے
اک تیرے ہجر کے لیے سو ہجر کاٹے ہیں
اب تو وہ زخم یاد کا بھر جانا چاہیے

34
کئی رستوں سے دل کو ہار کر جانم
کئی رستوں پہ تیری انتظاری ہے
تری فرقت میں ظالم کیا بتاؤں میں
قیامت جیسی دل کو بے قراری ہے

0
12
پھول دیکھتا ہوں تو اس کی یاد آتی ہے
اس کی خوشبو ایسی تھی اس کا نام ایسا تھا
اس کو سوچتا ہوں تو مے کدے میں ہوتا ہوں
اس کی آنکھیں ایسی تھیں اس کا جام ایسا تھا

20
دیکھ آیا جہاں اب کہاں جاؤں گا
رازداں مہرباں اب کہاں جاؤں گا
بول اے باغباں اب کہاں جاؤں گا
آئی ہے پھر خزاں اب کہاں جاؤں گا
تیرے نقشِ پا تو بس یہیں تک ہی تھے
کچھ بتا جانِ جاں اب کہاں جاؤں گا

0
28
سرِ بام تھا میرے خوابوں کا چاند آج
مہکتے رہے سارے من کے دریچے
برستے رہے یادوں کے گہرے بادل
سحر تک کھلے تھے سخن کے دریچے

0
9
سارا سفر بس اسی خیال میں گزرا
اگلے قدم پر تمہارا سامنا ہوگا

14
گزرے دِنوں میں جانِ جاں تم کون تھے میں کون تھا
کچھ یاد کر وہ داستاں تم کون تھے میں کون تھا
جو مرتے تھے اک دوجے پر بے چین رہتے رات بھر
آخر ہوئے جو رائگاں تم کون تھے میں کون تھا
جن کے دلوں کی دھڑکنیں اب جم گئیں ہیں سردی سے
جو ساتھ تھے پچھلی خزاں تم کون تھے میں کون تھا

46
مرے دل پر بھی چھالے پڑ گئے ہیں
سفر یہ جانِ جاں کب تک چلے گا
کسی رہ رو سے بس یہ پوچھنا تھا
یہ دل کا کارواں کب تک چلے گا

0
21
کسی بھولے بسرے خواب کی صورت دھیمے سے
کسی شب میری آنکھوں میں اتر کے تو دیکھو
جن راہوں سے کبھی تھا تیرا آنا جانا
کبھی ان ویراں راہوں سے گزر کے تو دیکھو

0
13
اپنی ہی دھن میں مست خواب کوئی
پھرتا ہے خانماں خراب کوئی
اس نے جب مسکرا کے دیکھا تو
شاخِ دل پر کھلا گلاب کوئی
اس نے جو نظریں پھیر لیں ہم سے
آنکھوں سے روٹھا جیسے خواب کوئی

0
33
چلا ہے پھر عشق کے سفر پر
رکا نہ دن بھی دل اپنے گھر پر
نظر بھی ہلکان ہوتی ہوگی
نہ بوجھ بن کر رہو نظر پر
یہ دل کا قصہ ہے، دل کی باتیں
نہ رکھ دلیلیں کسی خبر پر

25
یادوں کا بوجھ ہم سے اٹھایا نہ جائے گا
دردوں کا گیت بھاری ہے گایا نہ جائے گا

0
13
مد مستی کی بہار میں ہوں
اک جادوئی خمار میں ہوں
تو میرے سامنے ہے لیکن
میں تیرے انتظار میں ہوں
مجھ سے میرا پتہ نہ پوچھو
کیا جانے کس دیار میں ہوں

0
24
اُمّیدِ دید لے کے امّیدوار آئے
دل کی گلی میں تم کو ہر سو پکار آئے
دل کے دریچے تیری خوشبو کے منتظر ہیں
آؤ کہ دل کی نگری میں بھی بہار آئے
اس دشتِ دردِ جاں میں اک لمحے کے لیے بس
آنکھوں کو تو نظر آ کہ دل کو قرار آئے

0
23
دردِ ہجراں عذاب ہے جانم
دل کی حالت خراب ہے جانم
تم حقیقت ہو میرے خوابوں کی
بس یہی میرا خواب ہے جانم
میں کہاں خود کو ڈھونڈنے جاؤں
تو ہی میرا جواب ہے جانم

0
28
پھر کھا گیا پت جھڑ بہار کے دن
کیا رنگ لائے انتظار کے دن
یہ زندگی ساری گزر گئی ہے
آئے نہ لیکن وہ قرار کے دن
یاد آتے ہیں کتنے تھے خوبصورت
وہ عشق کے ہائے وہ پیار کے دن

0
28
اس دسمبر کی آخری شب میں
خواب ٹوٹے ہوئے سمیٹتا ہوں
پیار سے سارے دل کی چادر میں
لمحے گزرے ہوئے سمیٹتا ہوں

0
11
تو ماضی تو ہی مستقبل ہمارا
تو ہی دریا تو ہی ساحل ہمارا
اگرچہ اب جدا ہیں ہم تو کیا ہو
ازل سے عشق تھا کامل ہمارا
جہاں ملتی ہیں بخشش میں وحشت
وہ ہے اک کوچئہ قاتل ہمارا

0
16
اک گلستاں مرے تصور کا
خوشبوئے یار سے مہک رہا ہے
جلتی آنکھوں میں بھی کنول سا پھول
اب بڑے پیار سے مہک رہا ہے

0
22
میں نے سوچا تھا مگر اتنا نہیں سوچا تھا
یہ محبت مجھے اس حد تک اذیت دے گی
دل تو پہلے ہی شکستہ تھا مگر کیا معلوم
زندگی اور نئی شکل کی وحشت دے گی

0
17
رات کی چاندنی برفوں پہ سنہری چھاپے
یہ ترا لمس ہے، یا خواب کوئی باقی ہے

0
16
دھوپ کی لو بھی یہاں ہاتھ ملے واپس جائے
برف میں تیرے بدن جیسی حرارت ہے کہاں
در بہ در دل نے مرے ڈھونڈا ہے نگری نگری
تیرے پہلو کی وہ نرمی وہ سہولت ہے کہاں

0
12
دل دکھانے کا کچھ بہانہ کرو
اُن سے پھر کوئی دوستانہ کرو
نہ فسانہ بنے حقیقت جب
پھر حقیقت کو ہی فسانہ کرو
غمزۂ جاں سِتاں دکھاؤ پھر
اس دوانے کو پھر دوانہ کرو

0
22
کتنی آنکھوں سے خون برسا
کتنے منظر بکھر گئے ہیں
کتنی آنکھیں ترس گئی ہیں
کتنے مقتل سنور گئے ہیں
کتنا دلکش ہے مقتلِ جاں
ہائےسفاک کی ادائیں

0
2
22
یہ بھی کیا وقت کے دھارے میں بہا ہوں میں بھی
ایک دن خود سے بھی شاید نہ ملا ہوں میں بھی
میں نے چاہا تھا کہ ہر بات تمہیں کہہ ڈالوں
پر عجب یہ ہے کہ خود تک بھی چھپا ہوں میں بھی
تم بھی حیران ہو، میں بھی ہوں پریشان بہت
جیسے تم ہو مری جاں ویسا ہوا ہوں میں بھی

0
22
اب یہ ممکن ہی نہیں خواب سجائے جائیں
وہ جو آنکھوں میں رہے، کیسے بھلائے جائیں
مر گیا ہوں میں، اداسی کا بسیرا ہے یہاں
جانے والے کبھی واپس نہ بلائے جائیں
یاد کا شور ہے خاموش ہیں یہ لب لیکن
تم نہ آؤ تو کہاں درد سنائے جائیں

0
27
اب کوئی چاند سرِ شام نہیں چمکے گا
مر گئے چاندنی میں لوگ نہانے والے
اب کوئی دستکِ امید نہیں ہوگی یہاں
لوگ بچھڑے ہوئے واپس نہیں آنے والے
وہ فقط پیار کے افسانوں میں ہی ملتے ہیں
اس جہاں میں نہیں ملتے ہیں نبھانے والے

0
19
میں ہر شام و سحر ہر پل
تمہیں آواز دیتا ہوں
میں تنہائی کے صحرا میں
عجب پرچھائیوں کا یوں تعاقب کرتے کرتے اب
نہ جانے کس جہاں میں گم
صدائیں دیتا ہوں تمہیں

0
17
دل بھی عجب سے خواب دیکھتا ہے
جلتے ہوئے گلاب دیکھتا ہے
ہر گام ایک گل بدن کے سائے
ہر موڑ پہ سراب دیکھتا ہے

0
12
شام ہی سے چپ بیٹھے ہو کیا ہوا کچھ تو بولو
بہت الجھے الجھے سے ہو کیا ہوا کچھ تو بولو
ترے چہرے پر اتر آئی ہے ہجر کی اداسی
تو پھر آج ان سے ملے ہو کیاہوا کچھ تو بولو

0
21
میں کیسے کہوں کن لفظوں میں کہوں کیا ہو تم
کسی دیوتا کا سایا ہو کہ خود دیوتا ہو تم
یہ وجود جو ہے اک لمبا فسانہ ہے جس کا
آغاز اگر میں ہوں لیکن انتہا ہو تم
موزاؔؔٹ کی اور نہ بیتھووؔؔن کی سمفنی ہو
اے میری مہک تم میرے دل کی راگنی ہو

0
38
چلتے ہیں سرد ہوا کے دھارے ڈل کے کنارے
تیرتے ہیں یادوں کے شکارے ڈل کے کنارے
جانے کس خوشبو کے سہارے ڈل کے کنارے
کب سے بیٹھے ہے ہجر کے مارے ڈل کے کنارے
تیرے بغیر بھی دیکھتا ہوں میں ساتھ تمہارے
مہکے مہکے سے شام نظارے ڈل کے کنارے

51
تیرے خیال کی چادر اوڑھے ڈل کے کنارے
جانے کب سے ہم ہیں بیٹھے ڈل کے کنارے
پھولوں سے اٹھتی ہے اس کے بدن کی خوشبو
رقصاں ہیں ہائے کتنے سائے ڈل کے کنارے
کتنے مسافرِ رفتگاں محوِ سیر و سیاحت
پھرتے ہیں دیکھو سائے سائے ڈل کے کنارے

0
16
یادیں کب تک سنبھال کر رکھتا
کسی دن اس کو بھول جانا تو تھا
دلوں نے گرچہ صبح دم توڑا
شام تک رشتہ یہ نبھانا تو تھا
ہم تھے مجبور وقت کے آگے
وقت نے ساز چھیڑا گانا تو تھا

0
16
کانٹے کو گل کہو گے کب تک
بے دردی میں ہنسو گے کب تک
یوں اس کی یاد کے کنارے
دکھ کے کنکر چنو گے کب تک
خود سے باہر نکل جہاں دیکھ
خود میں ہی گم رہو گے کب تک

0
25
درد کے ساتھ دل کے زخموں نے
لمس جاناں کی آرزو کی ہے
کہ تُجھے پہلے پالوں پھر کھو دوں
میں نے کیوں ایسی آرزو کی ہے؟

17
مرے خیالوں میرے خوابوں کی مہک
وہ تھی یا تھی کوئی گلابوں کی مہک
مرے اُداس کمرے کی فضا میں ہے
ترے بدن کی یا کتابوں کی مہک
کبھی تو یادیں کوئی ساز چھیڑیں گی
کبھی تو آئے گی وہ خوابوں کی مہک

0
17
ہاں تری یاد سے کچھ ربط تو ہے
پر کسی کی مجھے عادت تو نہیں
کتنی باتوں پہ گزر جاتی ہے
دل کی حالت پہ بھی حیرت تو نہیں

0
16
اسے ہے ایسی ویسی بات کا دکھ
مگر مجھ کو ہے اپنی ذات کا دکھ
جہاں بھی جاتا ہوں بس گھیرتا ہے
وہی گزرے ہوئے لمحات کا دکھ
کئی ہنگاموں سے گزرا ہوں میں بھی
نہیں دل سے گیا اس رات کا دکھ

0
38
خود پہ بیداد کر رہا ہوں میں
دل کو آباد کر رہا ہوں میں
خود کو تعمیر کرنے کے لیے ہائے
خود کو برباد کر رہا ہوں میں
ایک شیریں کے واسطے یارو
خود کو فرہاد کر رہا ہوں میں

0
19
میرے اندر سے جب گزر گیا وہ
پوچھو مت کتنا مجھ سے ڈر گیا وہ
اپنے وعدوں سے ہی مکر گیا وہ
مجھ کو کتنا اداس کر گیا وہ
وہ بہت دور تک چلا مرے ساتھ
جانے پھر کس گماں سے ڈر گیا وہ

0
43
مجھ کو تم اللہ کے واسطے تنہا نہ چھوڑو
میں تنہائی میں خود کو کھانے لگ جاتا ہوں
پہلے نچوڑتا ہوں یادوں سے سب اس کے رنگ
پھر اس کی تصویر بنانے لگ جاتا ہوں
میں تُجھ سے ہی نکلتا ہوں دریا کی صورت
تجھ میں ہی گم ہو کے ٹھکانے لگ جاتا ہوں

0
23
میں روشنی کے خواب سجائے ہوئے چلا
پھر وقت کی ہوا ہی بجھا لے گئی مجھے
میں بھی کسی یقین کے ساحل پہ تھا کھڑا
اک موجِ بے یقینی بہا لے گئی مجھے
خاموشیوں کے شہر میں بے خود تھا بیٹھا میں
اس اک مہک کی باد صبا لے گئی مُجھے

0
17
تم ساتھ تھے تو کتنا آساں تھا مگر
اب جانا ہے کتنا کٹھن ہے یہ سفر
جب سوچتا ہوں تو نہیں آتا یقین
کل تک میں ہی تھا تیرا منظورِ نظر

0
17
کچھ مہینوں میں سب خمار گیا
دین سے ہی، وہ دین دار گیا
دل تو اپنی گلی میں ہی رہیو
وہ بھروسہ وہ اعتبار گیا
دی زمانے کو تنہا میں نے شکست
ہے عجب خود سے ہی میں ہار گیا

28
عام کو خاص لکھ رہا ہوں میں
اپنا اتہاس لکھ رہا ہوں میں
لکھ رہا ہوں وجود کا قصہ
یعنی بکواس لکھ رہا ہوں میں
ہے سیاہی سے سارا کاغذ تر
قصۂ یاس لکھ رہا ہوں میں

35
خود سے بھی اب تو بدگماں ہوگی
کتنی بےزار وہ وہاں ہوگی
اپنی ہستی سے ہو کے وہ بیزار
گم کسی اور ہی جہاں ہوگی
خود کو کر کے فنا مرے اندر
اب وہ شاید کہیں نہاں ہوگی

28
میں تھا گمان و یقیں سے پہلے
اس آسماں سے زمیں سے پہلے
یہ سلسلہ ہے کہیں سے پہلے
ہمیں تھے ہر جا ہمیں سے پہلے
یہ داستانیں فنا کی سب ہیں
میں تھا بقا کے قریں سے پہلے

23
اپنے ہونے پہ مان تھا ہی نہیں
جو تھا اس کا بیان تھا ہی نہیں
نقش تھا پر مکان تھا ہی نہیں
کسی شے کا نشان تھا ہی نہیں
میں بھی جھوٹا تھا وہ بھی جھوٹی تھی
اور کچھ درمیان تھا ہی نہیں

14
فِتْنَۂِ خاص و عام تھا ہی نہیں
کہیں ایسا نظام تھا ہی نہیں
گزرے بے نام ہی جہاں گزرے
اپنا تو کوئی نام تھا ہی نہیں
تم نے تو عشق کام سمجھا تھا
عشق تو کوئی کام تھا ہی نہیں

24
مجنوں فرہاد سارے مارے گئے
عشق کے وہ زمانے پیارے گئے
خواب خوابوں طرح سنوارے گئے
پھر بڑی بے دلي سے مارے گئے
بے سبب جس میں ہم ہی مارے گئے
جرم آخر وہ سر ہمارے گئے

21
آنکھوں میں کوئی خواب تھا ہی نہیں
شکر ہے اضطراب تھا ہی نہیں
وہ فسانے فقط فسانے تھے
کوئی اہلِ کتاب تھا ہی نہیں
اُس گمانِ گماں کے عالم میں
وہ یقیں کا شراب تھا ہی نہیں

0
29
جب درد حد سے بڑھ جائے تو رو لینا چاہئے
دل کے بنجر کو آنسوں سے بھگو لینا چاہئے
ایسے اجنبی شہر کی اجنبی سی سرد راتوں میں
آنکھوں میں کوئی خواب نہ ہو تو سو لینا چاہئے

16
کھلے آسمانوں کا یہ رشتہ قفس لگے
دل اتنا نہ چاہو کہ محبت ہوس لگے
اے میرے شبِ غم کے اندھیرو رکو ذرا
پھر اتنا نہ الجھاؤ کہ لمحہ برس لگے

0
9
جسم اتنے تھے کوئی سایا نہیں
میں نے بھی سو کسی کو پایا نہیں
میں کسی دشت کی طرف گیا تھا
اور پھر لوٹ کر میں آیا نہیں
عمر بھر خود کو ڈھونڈتا رہا میں
عمر بھر خود کو میں نے پایا نہیں

19
میرے دل سے اتر گئی ہوگی
پھر نہ جانے کدھر گئی ہوگی
وہ جو تھی خواب سی شفق زادی
کس کی باہوں میں مر گئی ہوگی
دور جا کر ذرا سنبھل کر وہ
مجھ پہ الزام دھر گئی ہوگی

0
46
کیا حال پوچھتے ہو، بھلا کیا بتائیں ہم
ہر پل الم، ہر ایک نظر انتظار ہے
سب کچھ فنا ہوا ہے مگر ایک بات ہے
اب تک کہیں خیال میں وہ شخص یار ہے

0
22
کیسے کہوں گزرا ہے کیا کیا میرے ساتھ
میرا مقدر جب سے الجھا میرے ساتھ
ویسے بھی اس صحرا میں کرنا تھا سفر
کیا اچھا رہتا تو جو چلتا میرے ساتھ
مجھ سے جھگڑتا اور لڑتا میرے ساتھ
پر کیوں کیا ہے اس نے ایسا میرے ساتھ

38
غم کی صورت بدل گئی ہوگی
رات شاید ہی ڈھل گئی ہوگی
درد کو حرف میں سجانے کی
شوق کی بات ٹل گئی ہوگی
وہ وہ بھی میرے جسم کی دیوار
چڑھتے چڑھتے پھسل گئی ہوگی

59
قربتِ یار کھل رہی ہوگی
یا ارادہ بدل رہی ہوگی
ایسے خوش فہمیوں کے جنگل میں
اک غلط فہمی پل رہی ہوگی
خود سے ملنے کی آرزو میں وہ
خود سے باہر نکل رہی ہوگی

62
باتوں باتوں میں کوئی بات نکل جاتی ہے
یہ کہانی بھی کئی موڈ بدل جاتی ہے
راتوں کو اٹھ کے نہ جانے وہ کسے سوچتا ہے
سوچتے سوچتے یہ رات نکل جاتی ہے

18
یہ معاشرہ تو ہے خداؤں کا معاشرہ
میرا اس معاشرے سے کوئی واسطہ نہیں
اس خرابے میں کوئی جگہ نہیں مرے لیے
اے شریکِ حال کیا یہ کوئی حادثہ نہیں
اس فسانے میں فقط تیرے ہی فسانے ہیں
میرے درد کا یہاں کوئی تذکرہ نہیں

0
23
زندگی درد کے کوچے میں گزاری ہم نے
اب کوئی اور تماشا ہمیں زندہ رکھے
کیا عجب شخص تھا، خوابوں میں ملا تھا مجھ کو
اب حقیقت میں بھی بس دور کا رشتہ رکھے

27
رسمِ دنیا ہی نبھاتے جائیے
غم چھپا تے مسکراتے جائیے
ہم جو ہیں، بس ایک خوابِ بے طلب
آپ بھی خوابوں میں آتے جائیے
دنیا سے کیا ہی شکایت ہو کہ اب
اپنا سایہ بھی ہٹاتے جائیے

29
دیکھا جو میں نے خواب کوئی معتبر کہیں
آیا نہ اس کا دل سے مگر وہ اثر کہیں
دل تیرا بھی ملال بجا ہے مگر سنو
میں کیا کروں کہ ملتا نہیں وہ اگر کہیں
تڑپے ہے دل وہی، وہی آشوبِ جاں کا حال
ملتی نہیں قرار کی کوئی خبر کہیں

51
زندگی کا نہ ہے زمانے کا
بس گلہ ہے ترا نہ آنے کا
ہم کہیں کے نہیں رہے دیکھو
یہ نتیجہ ہے دل لگانے کا
تو نے چہرہ بدلنا سیکھا ہے
تو بھی اب ہو گیا زمانے کا

43
زندگی کی راہوں پر
ہم نے کئی راستے چنے،
کئی باغوں اور صحراؤں سے گزرے
مگر ہر موڑ پر
اک نیا سوال کھڑا تھا،
اک نیا دھندلا منظر

0
22
یہ کیا ہے جو دل کے دریچوں پہ
اک بوجھ سا ٹھہر گیا ہے
جیسے بے صدا شام کا سایہ
ہر احساس پر چھا گیا ہے
آہ!
دل کی ویرانی میں،

0
19
وہ لمحہ جب وہ بچھڑا،
یوں لگا جیسے کوئی کہانی
اپنے انجام سے پہلے ہی ٹوٹ گئی ہو،
جیسے کوئی موسیقی کا راگ
ایک نکتہ پر آ کر رُک گیا ہو
اور سازوں میں خاموشی

22
صدیوں پہلے،
جب وقت نے پہلا سانس لیا،
محبت کا بیج بویا گیا،
نرم دلوں کی زمین پر،
آنکھوں کی چمک میں،
ہونٹوں کی ہلکی لرزش میں،

27
راتیں پاگل کر دیتی ہیں،
جب آسمان کی چادر پر
چاند کے پھیلتے دھبے
اور ستاروں کی بجھتی ہوئی روشنی
دل کو چھو لیتی ہے۔
یہ خاموشی،

0
21
اس گلی میں
جہاں دھول اڑتی ہے
ہوا کے نرم جھونکے
دیواروں کو چھو کر
کبھی رک جاتے ہیں، کبھی گزر جاتے ہیں
پرانے دروازے

0
22
جہلم کے کنارے
چلتے چلتے
ہم دونوں
خاموش تھے،
مگر دلوں میں طوفان تھا
شاید وہ لمحہ

22
میں خود میں اتر کے تھک گیا ہوں
جاں کا خلا بھر کے تھک گیا ہوں
وہ جو تھی حَویلی دل کی اس کو
برباد میں کر کے تھک گیا ہوں
خواہش تھی کہ کوئی راہ نکلے
ہر موڑ پہ مر کے تھک گیا ہوں

0
40
خیالِ یار میں ہم بے خیال ہی پھرے ہیں
جب اس گلی سے اُٹھے پھر گلی گلی پھرے ہیں
اکیلا تو نہیں پھرتا رہا میں دھوپ کے شہر
سفر میں ساتھ مرے میرے سائے بھی پھرے ہیں
نہ پوچھو شام و سحر کیسے ہم برہنہ پا
تری تمنا لیے دشتِ تشنگی پھرے ہیں

60
آج کچھ بات کرنے آئے تھے
دن میں ہی رات کرنے آئے تھے
جسمِ خاکی اتار کر سرِ طور
اک ملاقات کرنے آئے تھے
آپ تو بس خموش بیٹھے ہو
ہم تو کچھ بات کرنے آئے تھے

52
سرِ شامِ ہجر دِوانے گھر تو نہیں گئے
ذرا دیکھ تو لو کہیں وہ مر تو نہیں گئے
چلو مان لیتے ہیں خاک ہوکے ہی آئے ہیں
مگر اپنے وعدے سے ہم مکر تو نہیں گئے
کسی رات سے مجھے دشتِ ذات میں لائے ہیں
ترے ہجر جانِ جاں بے اثر تو نہیں گئے

71
کوئی منزل نہ رہ گزر مجھ میں
بے سفر کرتا ہے سفر مجھ میں
شاخِ جاں پر کھلے ہیں خون کے پھول
غم نے یوں کر لیا ہے گھر مجھ میں
یا تو کچھ بھی نہیں رہا باقی
یا سمٹ آیا بحر و بر مجھ میں

0
2
87
وہ راتیں کیا ہوئیں مہتاب کیا ہوئے
شبِ فراق کے وہ باب کیا ہوئے
مجھے بتا اے دلِ بے قرار تو
وہ نیند کیا ہوئی وہ خواب کیا ہوئے
یہ دشت تو ابھی بھی دشت ہیں مگر
جو باغ تھے کبھی شاداب کیا ہوئے

0
36
تنہا جب ہجر کی تاریکی سے ڈرتا ہوگا
بات پھر رات وہ دیواروں سے کرتا ہوگا
جانے اب کس کے لیے کھڑکی وہ کھلتی ہوگی
جانے اب اس گلی سے کون گزرتا ہوگا
اور کیا ہونا تھا اسکے چلے جانے کے بعد
کل بھی مرتا تھا وہ سو آج بھی مرتا ہوگا

0
63
ہم تھے ہونے کی واردات میں کیا؟
گُل یہی کِھلنے تھے حیات میں کیا؟
جب کِھلا تھا مِرے وجود کا پھول
تو اسی دم تھا کائنات میں کیا؟
جتنے صحرا تھے سب گزر گئے ہیں
ابھی بھی کچھ ہے دشتِ ذات میں کیا؟

107
آئے دن ان سے ملاقات ہوا کرتی تھی
فون پر بات بھی دن رات ہوا کرتی تھی
اب تو سمجھانے سے بھی بات سمجھتی نہیں وہ
آنکھوں ہی آنکھوں میں جو بات ہوا کرتی تھی
چلتے چلتے یونہی جہلم کے کنارے بیٹھے
ہاتھوں میں ہاتھ لیے رات ہوا کرتی تھی

89
آنکھیں جل جائیں اور جواں خوابوں کو آگ لگے
دل کی جھوٹی دنیا فنا ہو، احساسوں کو آگ لگے
اب دنیا کی ہر شے سے بیزار اس دل کو کیا مطلب
یہ چاند ستارے خواب ہوں، سیاروں کو آگ لگے
اب میرے گھر سے ایسا وحشت کا موسم گزرے
ان کھڑکیوں کو طوفاں لے اُڑے دروازوں کو آگ لگے

0
43
حقیقت جان کے بھی خواب دیکھے ہیں
اندھیری نگری میں مہتاب دیکھے ہیں
اسی دریا کنارے میں بھی رہتا ہوں
مری آنکھوں نے بھی سیلاب دیکھے ہیں
خزاں کی رُت میں بھی دل دشت میں ہر سوں
اُمیدوں کے شجر شاداب دیکھے ہیں

42
آگ کی طرح تن بدن کھا گیا
مجھ کو میرا ہی خالی پن کھا گیا
دیکھ لو کوئی ہجر کا پت جھڑ
کیسے خوابوں کا اک چمن کھا گیا
میں نہ ہونے کے حال میں تھا مگر
مجھ کو ہونے کا بانکپن کھا گیا

63
صبح ہی شام کا منظر ہوا دل
اک گلستان سے کھنڈر ہوا دل
مجھ سے مت پوچھو مری بے تابی
وہ نظر کیا اٹھی ساغر ہوا دل
حسن کی گرہیں کھلیں پے در پے
ایک مدت میں شناور ہوا دل

83
چھوٹی چھوٹی باتوں پر کسمسانا چھوڑ دے
زِندگی جینی ہے تو روٹھ جانا چھوڑ دے
ہر فسانہ جھوٹ ہے ہر زمانہ دھوکہ ہے
آتی جاتی رت سے دل! دل لگانا چھوڑ دے
اندھوں کے اس شہر میں سن کسی کو کیا خبر
تو بھی اپنے آپ سے منھ چھپانا چھوڑ دے

0
32
پھول سی باتیں پھول سا لہجہ
کتنا دلکش ہے آپ کا لہجہ
لب ہیں ایسے کہ ٹہنی پر ہوں گلاب
اس پہ پھر یہ بہار سا لہجہ
کب شَبستانِ ہجر میں دیکھا
ہم نوا ساز ہم نوا لہجہ

33
دل میں وہ شوق بھی نہیں آنکھوں میں خواب بھی نہیں
ہائے وہ پہلا سا جنوں وہ اضطراب بھی نہیں
ہاں خواہشوں کی جنگ میں ہے یہ جگر لہو لہو
حالت خراب ہے مگر حالت خراببھی نہیں
دیکھو کہ جس کی چھاؤں میں ہے ہجر کاٹنا مجھے
اس کالے آسمان پر وہ آفتاب بھی نہیں

0
33
جانے کہاں سے آتی ہے بے چینی صبح صبح
بیگانے درد کرتے ہیں سرگوشی صبح صبح
شب تو گزاری تھی کسی امید پر مگر
پھیلی گھنی اداسی کی تاریکی صبح صبح
گزری تھی شب بھی ہاں اسی بربادی میں مگر
چھیڑا ہے دل نے نغمئہ بربادی صبح صبح

0
31
کب تک خاموش رہوں گا کبھی تو چیخوں گا چلاؤں گا
ساری زنجیریں توٹیں گی پنجرے سے آزاد ہو جاؤں گا
یوں سدا اس آوارہ نگری میں آوارہ تو نہیں پھروں گا
کبھی تو دیوانگی ڈھلکے گی کبھی تو میں ہوش میں آؤں گا
کب تک ناگن ڈستی رہے گی پل پل رگِ جاں کستی رہے گی
کبھی تو یہ گردشِ زہر رکے گی کبھی تو میں مر جاؤں گا

0
52
وہ شکل تھی خواب سی کوئی خواب تھا جنوں سا
یا وہ حقیقت تھی یا یونہی چھایا تھا فسوں سا
نہ وقت کے ساتھ درد کی شورشیں ہوئی کم
وہی فسانہ ہے برپا گزرے ہوئے دنوں سا
وہ کون تھا میرا کیا مراسم تھے میرے اس سے
کسے کہیں کون سمجھے یارانہ دشمنوں سا

33
مجھ سا اک شخص ہو بہ ہو مجھ میں
کرتا ہے میری جستجو مجھ میں
خود سے بھی دور میں چلا آیا
اب نہیں کوئی آرزو مجھ میں
روشنی کا نشاں بھی باقی نہیں
پھیلی ہے رات کو بہ کو مجھ میں

0
53
میں تجھ میں ہوں تو مجھ میں ہے ہم میں کچھ بھی نہیں
کسی غم میں دونوں ہیں پر غم میں کچھ بھی نہیں
ہے یہ سب فسانہ عدم کا فسانہ کوئی
کہ آدم ہوا میں ہے آدم میں کچھ بھی نہیں
عجب حال ہے ذہن کی خستہ دیوار کا
کہ یادوں کا البم ہے البم میں کچھ بھی نہیں

0
56
خود کو برباد کرکے بہت خوش ہو تم
خود کو بر باد کر کے تمہیں کیا ملا
دل تو بازارِ دل آیا ہی کیوں تھا بول
حسن کے ہاتھوں مر کے تمہیں کیا ملا

0
32
ایک بے نام سی امید پہ جلے کب تک
جھلملاتا دیا طوفانوں سے لڑے کب تک

0
37
اجنبی راہوں کے مسافر ہم
اجنبی منزلوں کی جستجو میں
پاگلوں کی طرح بھٹکتے رہے
دربدر اس  جہانِ  آرزو  میں

0
44
زندہ ہونے کی گواہی تو دے
تو اگر دھڑکن ہے سنائی تو دے
تو زندگی بھر کا منافع رکھ
لیکن مجھے میری کمائی تو دے

41
اے مسافر ایسے نہ گھبرایو یہ شام سویرا دھوکہ ہے
تم چلتے رہیو رُکیو مت رنگوں کا ڈھیرا دھوکہ ہے
ان دیواروں کے پیچھے ایک نئی دنیا بھی چِھپی ہوئی ہے
یہ ضیا یہ روشنی جھوٹی ہے یہ گہرا اندھیرا دھوکہ ہے

0
29
میرے جسم سے میری روح تک
ایک گھنی اداسی پھیلی ہے
جس کی تند لہریں دھائیں بھائیں
امیدوں کے ساحلوں سے ٹکرا کر
میری جسم و جاں کی بنیاد کو
جھنجھوڑتی ہیں

0
63
میرے الفاظ مرا لہجہ ہو تم
میرے احساس کا اک دریا ہو تم
عشق وحشت جنوں رب خواب گماں
میں بھلا کیسے کہوں کیا کیا ہو تم

0
35
شہرِ بے خیال میں یوں ہم خیال ڈھونڈتا ہوں
خواب خواب دشت میں جیسے غزال ڈھونڈتا ہوں
تیرے خط خیال میں تجھ سا جمال ڈھونڈتا ہوں
تیرے ہجر نامے میں رنگِ وصال ڈھونڈتا ہوں

0
75
اک عمر تلک وہم یہ پالے نہیں جاتے
اب مجھ سے مرے خواب سنبھالے نہیں جاتے
دل میں تو کِیا ہے گھنی تاریکیوں نے گھر
ان آنکھوں سے لیکن یہ اجالے نہیں جاتے
یہ دن کسے معلوم میسر ہوں نہ ہوں کل
دن وصل کے یوں بے دِلی ٹالے نہیں جاتے

0
89
جام پر جام پی کر بھی دیکھا میں نے
اپنے ہونٹوں کو سی کر بھی دیکھا میں نے
پر ترے غم کی لذت گھٹی ہی نہیں
ہجر میں اب کہ وحشت گھٹی ہی نہیں
اپنے دل کو بھی اب مار ڈالا میں نے
ذہن سے ہر گماں کو نکالا میں نے

0
42
چل پڑے ہو کہاں بے سر و ساماں تم
تم نے جانا کہاں کیا ہے منزل تری
مجھ کو مت کریو اپنا شریکِ سفر
دوست بڑھ جائے گی مجھ سے مشکل تری

81
جب سورج ڈھلتا ہے
جب زلفیں شب کی کھلتیں ہیں
فضا خاموشی کی چادر اوڑھتی ہے
جب تارے نکل پڑتے ہیں
جب چاند نکل پڑھتا ہے
بامِ فلک سے شبنم گرتی ہے

127
میں خود کو کھو رہا ہوں مجھ کو بچائے کوئی
میرے وجود کا پھر سپنا دکھائے کوئی
وہ دل وہ شہرِ امید وہ گل وہ باغِ خورشید
ویران ہو چکا ہے اس کو بسائے کوئی
وہ جس کو میں ابھی تک اپنا وجود کہتا
موجود ہے کہیں تو مجھ کو دکھائے کوئی

112
بات خوابوں سے بنائے رکھتا ہوں میں
آگ آنکھوں میں جلائے رکھتا ہوں میں
کیا خبر کب لوٹ آئے وہ سفر سے
راتھ بھر دل کو جلائے رکھتا ہوں میں

0
51
کوئی چہرہ آنکھوں سے اوجھل ہوا جاتا ہے
دل بھی رفتہ رفتہ پاگل ہوا جاتا ہے
سینے میں کسک جو تھی وہ قیامت بن گئی ہے
پلکوں پر درد بھی اب بوجھل ہوا جاتا ہے

0
54
اب یہ خواہش ہے کہ کوئی خواہش نہ ہو
بھیگ جائیں آنکھیں لیکن بارش نہ ہو
وہ جو خود ہے وجہِ رنجش وہ بھی یہی
چاہتا ہے دمیاں کوئی رنجش نہ ہو
ابرِ دل نے بھی ہے کاٹا تیرا فراق
ہو نہیں سکتا تو آئے بارش نہ ہو

0
67
آئینہ آئینے سے بات کرتا ہے
کس طرح گھر بسر یہ رات کرتا ہے
جانے کیا دوستی ہے ابر کو مجھ سے
روز میرے ہی گھر برسات کرتا ہے
پوچھتی ہیں یہ گھر کی زرد دیواریں
رات بھر تو یہ کس سے بات کرتا ہے

72
ایک ان دیکھا خواب ہوں میں
آگ کا اک گلاب ہوں میں
کوئی ہے بے حجاب مجھ میں
یوں کسی کا حجاب ہوں میں
جس کا کردار بھی نہیں ہوں
ایک ایسی کتاب ہوں میں

0
60
کوئی تجھ کو بھی ہے ڈھونڈتا جوگیا
تو کہاں کھو گیا پاگلا جوگیا
جس کی ہے جستجو وہ تو ہے ہی نہیں
اب یہ ضد چھوڑ دے مان جا جوگیا
زخمِ جاں مشکلوں سے بھرا تھا مرا
تو نے کیوں مجھ کو پھر چھو لیا جوگیا

0
111
دل بہ دل اک ملال تھا لب بہ لب اک سوال تھا
یار ہمارے درمیاں رشتہ ہی بے مثال تھا
سوچو تو جس خرابے میں جینا بھی کچھ محال تھا
مجھ کو ترا خیال تھا تجھ کو مرا خیال تھا
گزرے دنوں کا کیا کہیں کیا عجب اک زمانا تھا
لوگ بھی با کمال تھے عشق بھی با کمال تھا

0
106
مجھ میں جو آدم تھا جانے کیا ہــوا اس کو
جسم کے ملبے میں اب تم ڈھونڈنا اس کو
عمر بھر اس کج روا نے بے رخی برتی
عمر بھر دیتا رہا کوئی صدا اس کو
وہ جو تم تھے کاش مل جاتے کبھی مجھ کو
وہ جو میں تھا کاش پھر میں دیکھتا اس کو

99
خود اپنی راہ کی دیوار بن گیا ہوں میں
کہ اپنے دشمنوں کا یار بن گیا ہوں میں
تو میرا چہرا تو پڑھ اے مرے رفیق کہ اب
خود اپنے آپ کا اخبار بن گیا ہوں میں
میں جس کہانی کا مرکز تھا اک زمانے تک
اب اس کا ثانوی کردار بن گیا ہوں میں

0
57
پہلی محبت کا بھرم تو رکھتے
کچھ دیر چشمِ ناز نم تو رکھتے
مانا کہ قسمت میں خوشی نہیں تھی
غم میں ہی کچھ افراط کم تو رکھتے
تم نے کہاں تھا مستقل ہی رہنا
پر کم سے کم دل میں قدم تو رکھتے

0
41
نہ مکاں ہے نہ ہے مکیں باقی
کسی شے کا نشاں نہیں باقی
یکسر اب مجھ میں میں نہیں باقی
تو ہے لیکن کہیں کہیں باقی
اب تو موجود ہی نہیں کہیں کچھ
اب بھی ہوں کیا یہیں کہیں باقی

0
91
دل تجھے اس نگری میں آنا نہیں تھا
بے سبب خود کو یوں الجھانا نہیں تھا
خود جسے بخشی تھی جذبوں سے روانی
خود اسی دریا میں بہہ جانا نہیں تھا
آ گیا تھا مجھ کو جینے کا ہنر اب
اب تجھے یوں لوٹ کر آنا نہیں تھا

0
69
تو میرے سامنے کیوں نہیں آتا
کہ دل کو میرے بھی کچھ یقیں آتا
درخشاں ہوتی ہر شاخِ بامِ دل
کبھی اس شہر وہ مہ جبیں آتا
گنوا دی ہائے کیوں زندگی تو نے
میں گر واپس بھی آتا یہیں آتا

0
39
دشتِ جاں میں جی بے قرار ہے بہت
آ بھی جا تیرا انتظار ہے بہت
یہ اداکاری تیری ٹھیک ہے مگر
خود پہ بھی دل یہ شرمسار ہے بہت
دل یہاں تھوڑا سا سنبھل کے چلنا تو
دیکھو یہ دنیا دنیا دار ہے بہت

0
51
میں خزاں میں بہار ڈھونڈتا ہوں
ہجر میں اپنا یار ڈھونڈتا ہوں
مجھ کو تو ایسا صدمہ ہے کہ تجھے
ایک پل میں سو بار ڈھونڈتا ہوں
جب تو موجود ہی نہیں کہیں پر
تو کیا تجھ کو بے کار ڈھونڈتا ہوں

0
89
کس طرح ہم بکھر گئے جاناں
سب دعا بے اثر گئے جاناں
تم کو کچھ یاد ہیں وہ چہرے جو
خوابوں کے ساتھ مر گئے جاناں
اب نہ آنا مداوا کرنے تو
دل کے وہ زخم بھر گئے جاناں

0
73
کس طرح ہم تباہ ہوئے جاناں
دیکھو تو ہم کیا سے کیا ہوئے جاناں
جو بھی تری تلاش میں نکلے تھے
وہ خود میں اپنی راہ ہوئے جاناں

0
20
فکر کرتے ہیں جہاں جو تو تو کچھ ہے ہی نہیں
تجھ کو کیا غم کہ تو رہتا ہے جہانِ گماں میں

0
69
گزریں گے جب جانِ جاں مشکل یہ فرقت کے دن
ہم بھی سنبھل جائیں گے تم بھی سنبھل جاؤ گے
آغازِ الفت ہے جو کل دیکھ لینا صنم
ہم بھی بدل جائیں گے تم بھی بدل جاؤں گے

0
83
مجھے ڈر تھا تم کو کہیں کھو نہ دوں میں
سو خود سے اتر کر نہیں دیکھا میں نے
سنوارا ہے مجھ کو مری بے بسی نے
کبھی خود سنور کر نہیں دیکھا میں نے

0
88
مجھ کو جو چاہیے تھا وہ مجھ کو ملا نہیں
سو اب مرے لبوں پہ کوئی التجا نہیں
مجھ کو گلہ کیا ہوتا تو سب سے ملا مگر
ہاں اک گلہ ہے وہ یہ تو مجھ سے ملا نہیں
ہم ہیں اسی جہاں کے کہیں اور کے نہیں
یہ ہے تمہاری مرضی یقیں کر لے یا نہیں

125
میں نے سمجھا تھا خواب ہو تم
با خدا اک عذاب ہو تم
کتنوں نے جاں گنوائی پھر بھی
کتنوں کا انتخاب ہو تم
وقت کے دائرے سے باہر
جاودانی شباب ہو تم

89
لبوں کو سی کے ہر دم پیتا ہوں خونِ جگر اپنا
در و دیوار سے اب پھوڑتا ہوں یارو سر اپنا
کسے مجرم کہوں کس کو سزا دوں اے دلِ منصف
جلایا ہے میں نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے گھر اپنا
ابھی ان کہکشاؤں سے بہت آگے گزرنا ہے
یونہی چلتا رہے بس شب کے اے تارو سفر اپنا

0
101
وہ موسم ذوق کے، دلبر گئے کب کے
جو تھے کچھ لوگ زندہ مر گئے کب کے
نہیں آئے گا کوئی دل کی نگری میں
جنہیں آنا تھا وہ آ کر گئے کب کے
تو اب کیا ڈھونڈتا ہے ڈھونڈنے والے
وہ سب دل باختہ بے گھر گئے کب کے

0
98
خود ہی تجھ کو میں بناتا اور پھر خود ہی مٹاتا ہوں
دیکھو تو کس سادگی سے دل کو میں پاگل بناتا ہوں
مجھ کو تیرے شہر کے لوگوں سے جانے کیا شکایت ہے
کتنا ظالم ہوں جو بھی ملتا ہے اس کا دل دکھاتا ہوں
کوئی وعدہ تو کرو اک وعدے پر عمریں گزرتی ہیں
دشمنی ہو دوستی ہو جو بھی ہو دل سے نبھاتا ہوں

140
درمیاں جب وہ تعلق ہی نہیں
کیوں امیدوں کا دیا جلتا رہے
یاد ہی کیوں ان کو ہم کرتے رہیں
کیوں بدن میں زہر سا گھلتا رہے

0
41
آنکھوں نے دیدہ ور نہیں دیکھا
کہیں وہ با خبر نہیں دیکھا
ان کو بھی سر بسر نہیں دیکھا
حسن کا وہ شجر نہیں دیکھا
سبھی نے مسکراتے لب دیکھے
کسی نے دیدۂ تَر نہیں دیکھا

0
151
عجب اک حشر برپا ہے مجھ میں
روز اک شخص مرتا ہے مجھ میں
کیوں کروں اپنی پروا میں جاناں
وہ تھا ہی کب جو میرا ہے مجھ میں
اب کہیں کچھ دھواں نہیں اٹھتا
خدا جانے کیا جلتا ہے مجھ میں

146
بچھڑ رہے ہو تو اپنا خیال رکھنا
نہ رنج نہ دل میں کوئی ملال رکھنا
وہ باتیں وہ یادیں تو بے گناہ ہیں سب
وہ باتیں حسین یادیں سنبھال رکھنا
وہ عشق کے سارے سلسلے توڑ دینا
مگر کوئی رابطہ بھی بحال رکھنا

117
پہلے پہلے بے قراری پیاری لگتی ہے
پھر جگر پہ جیسے کوئی آری لگتی ہے
سانس لینا بھی عذابِ جان ہوتا ہے
جب محبت سی کوئی بیماری لگتی ہے
کون اتنی دشمنی دل سے نبھاتا ہے
تیری دشمن سے پرانی یاری لگتی ہے

100
دل ہی نے عہدِ وفا باندھا تھا خود
دل ہی مگر بے کلی میں مر گیا
بچ گیا جو دشمنوں کی بستی میں
دوستوں کی بستی ہی میں مر گیا
وہ مرا ہم راہ مرا ہم سفر
جانے کہاں کس گلی میں مر گیا

104
کہاں جانا ہے کس گلستاں کے ہو تم
مگر لگتا ہے کچھ پریشاں سے ہو تم
یہ بستی ہے فرعون کی بستی پاگل
تجھے کچھ خبر ہے کہاں رہتے ہو تم
مری شاعری پڑھ کے وہ پوچھتی ہے
یہ کس کی محبت میں یوں ٹوٹے ہو تم

140
پہلے خواب دکھایا گیا مجھ کو
اس کے بعد رلایا گیا مجھ کو
اہل بزم کو ہے ایسی عداوت
بزم سے ہی اٹھایا گیا مجھ کو

0
66
آنکھوں کو یونہی کوئی خواب دکھانا تھا مجھے
خوابوں کے شہر میں ورنہ کہاں آنا تھا مجھے
قیس کے دشت میں اک شہر بسانا تھا مجھے
عشق ہے کیا یہ زمانے کو دکھانا تھا مجھے
وہ بھی مجبور تھی وہ شخص بھلانا تھا اسے
میں بھی مجبور تھا ہر حال نبھانا تھا مجھے

0
151
مرے دل عشق میں راہِ فرار نہ ڈھونڈ
غمِ ہجراں میں موسم خوش گوار نہ ڈھونڈ
لٹا دے وہ سکوں بھی جو بچا ترے پاس
جہانِ طوفاں میں پھر وہ قرار نہ ڈھونڈ
بہاروں نے بھی کھائی ہیں جوانیاں دیکھ
خزاں کو آزما تو پر بہار نہ ڈھونڈ

0
65
قیامت آفریں ہیں اس جاں آفریں کی نگاہیں
خدا کرے یہ قیامت کبھی غریبوں پہ گزرے

0
40
نکلے تھے کس جنوں میں دشتِ الفت کی طرف
اب سینے میں وہ دل ہے نہ سامنے منزل ہے
سمٹ آئی ہے دنیا فقط کچھ اداس لمحوں میں
کمرے میں میرے عجب اک شورِ سلاسل ہے

0
35
اب کہ تم آزاد پرندہ ہو
جس چمن کا چاہے
سیر کر سکتے ہو
تم اپنی باتوں
اپنے قسموں وعدوں سے
مکر بھی سکتے ہو

61
سب یہاں اپنا چمن ڈھونڈتے ہیں
ہم مگر اپنا بدن ڈھونڈتے ہیں
جن کے سر پر ترا سایا نہیں ہے
اوڑھنے کو وہ کفن ڈھونڈتے ہیں
فتوی منصف نے سنایا بھی نہیں
یار تو دار و رسن ڈھونڈتے ہیں

0
118
سب یہاں اپنا چمن ڈھونڈتے ہیں
ہم مگر اپنا بدن ڈھونڈتے ہیں
جن کے سر پر ترا سایا نہیں ہے
اوڑھنے کو وہ کفن ڈھونڈتے ہیں

0
46
اس شہرِ طوفاں کا نیا انداز ہے
جو سوچتا ہے اس کو مارا جاتا ہے
پھر مقتلِ گل کو سجا دو خون سے
اے منصفِ دوراں ترا کیا جاتا ہے

0
24
اس کی وفا وہ داستانِ صد جفا کس سے کہوں
گزرے ہیں دل پر رنج کیا کیا اے خدا کس سے کہوں
کب جل گیا ہے گلشنِ دل کب بجھی آنکھیں مری
سوزِ نہاں کی کب ہوئی ہے ابتدا کس سے کہوں
میری جوانی کیا ہوئی وہ ہجر کا غم کیا ہوا
وہ عشق کا افسانہ آخر کیا ہوا کس سے کہوں

0
81
جانِ جاں اک بات تو بولو مجھ کو
جینے کی تسلی کیوں دے رہی ہو مجھ کو
کہہ رہی ہو کتنے روشن ہیں یہ چراغ
وہ چراٰغ جو کبھی جلے ہی نہیں؟
دیکھو یہ پروانے ہیں کس قدر محوِ گردش
وہ پروانے؟جو کبھی تھے ہی نہیں

0
33
کوئی شیشہ کوئی چہرہ یاد نہیں
وہ پہلا سا میں تیرے بعد نہیں
رفتہ رفتہ بدلی ہیں صورتیں سب
اب شہرِ یاراں بھی آباد نہیں

0
25
چاہتو ں کے روزوں کو رائیگاں نہ ہونے دے
خوش گمانی کو ہمدم بدگماں نہ ہونے دے
کچھ تو باقی رہنے دے سلسلے محبت کے
لامکانوں کو پھر سے لامکاں نہ ہونے دے

0
66