سہانی یادوں کا قافلہ، اب بھی ہر شام آتا ہے |
جیسے کسی پردیسی کو گھر سے پیغام آتا ہے |
رکھتی ہیں جب وہ پھول سے ہاتھ مری پیشانی پر |
درد ٹھہر جاتے ہیں دل کو آرام آتا ہے |
جب کہیں ٹھوکر لگتی ہے گرتا ہوں تو لب پر |
پہلے آتا تھا ماں کا اب تیرا نام آتا ہے |
اب کہاں سے لائیں ایسی مستی ایسی آنکھیں |
ان سے نظر ملتے ہی ہاتھوں میں جام آتا ہے |
تجھ کو زعم ہے اپنی لنکا پہ وقت کے راون |
تھوڑا سا صبر تو کر ہر کہانی میں رام آتا ہے |
ایک وہ ہے کہ مجھے دشنام پہ دشنام دیتا ہے |
ایک میں ہوں کہ پھر بھی ان پہ احترام آتا ہے |
کیسی مسافرت ہے یہ یہ کیسی مسافت ہے |
دل کو میرے خیالِ شکست ہر گام آتا ہے |
آدھی شب ہے ابھی کافی دیوانے باقی ہیں |
دیکھتے ہیں کب ان کی زباں پہ مرا نام آتا ہے |
معلومات