| میں اپنے کمرے میں بیٹھا |
| جیسے ابھی نیند سے جاگا ہوا |
| کئی جنموں کا بوجھ اٹھائے |
| جیسے کوئی قیدی بھاگا ہوا |
| سوچ رہا تھا |
| دیواروں نے رنگ کب بدلا |
| کھڑکیوں پر پردے کس نے لگائے |
| فرش پر پڑے یہ کس کے کپڑے تھے |
| لہرا رہے تھے یہ کس جسم کے سائے |
| میں اٹھا، کھڑکی کی طرف گیا |
| پردوں سے |
| ایک زمانے سے جمی |
| خوابوں اور خیالوں کی دھول جھاڑی |
| مجھ کو دکھنے لگی کوئی دلکش سی وادی |
| میں نے |
| آہستہ سے کھڑکی کھولی |
| ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی |
| خوابوں کی چادر اوڑھے |
| ساری دنیا سو رہی تھی |
| صدیوں سے جاری دریا سے |
| ساتھ اپنے کنول کی خوشبو |
| تازہ ہوا کا جھونکا آیا |
| میں جیسے صدیوں بعد |
| وقت کی طرح پہلا |
| سانس لے پایا |
| جیسے زنداں میں روشنی آئی |
| دیواروں پر بیٹھی اداسی مہکائی |
| کمرے کی دھند ساری چھٹ گئی |
| جیسے زمان و مکاں کی ڈھور |
| ایک جھٹکے میں کٹ گئی |
| تیز ہوا نے |
| ٹیبل پر رکھے کچھ شیٹ |
| اڑا کر فرش پر بکھیر دیے |
| مجھے کوئی آواز سنائی دینے لگی |
| میں نے اپنی دھڑکن کو محسوس کیا |
| میں جیسے ان اداس دیواروں کو |
| ان ادھ کھلی کھڑکیوں کو |
| پہلی بار دیکھ رہا تھا |
| میں ان دیواروں کو جانتا نہیں تھا |
| یہ دیواریں مجھ کو جانتی تھیں |
| میں ان کھڑکیوں کو پہچانتا نہیں تھا |
| یہ کھڑکیوں مجھ کو پہچانتی تھیں |
| یہ دیواریں یہ کھڑکیاں |
| مجھ کو حیران دیکھ کر ہنسنے لگیں |
| لیکن میرا دھیاں پنکھے پر تھا |
| میں پنکھے کو دیکھ رہا تھا |
| پنکھا مجھ کو دیکھا رہا تھا |
| شیلف پر پڑی کتابوں میں رکھے |
| گلاب مہک رہے تھے |
| ان گلابوں کے ساتھ رکھے |
| خط بھی چہک رہے تھے |
| میں یک دم خاموش پڑا تھا |
| پنکھا لیکن چیخ رہا تھا |
| یہ میری دنیا تھی |
| یہ میرا کمرہ تھا |
| جس کی دو کھڑکیاں تھیں |
| جس کا کوئی دروازہ نہ تھا |
| بیڈ پر خوابوں کی لاشیں پڑی |
| مجھ کو حیرت سے گھور رہیں تھیں |
| لیکن میں پنکھے کو دیکھ رہا تھا |
| اور پنکھا مجھ کو دیکھ رہا تھا |
| یہ میری دنیا تھی |
| یہ میرا کمرہ تھا |
| جس کی دو کھڑکیاں تھیں |
| جس کا کوئی دروازہ نہ تھا |
معلومات