| اسے ہے ایسی ویسی بات کا دکھ |
| مگر مجھ کو ہے اپنی ذات کا دکھ |
| جہاں بھی جاتا ہوں بس گھیرتا ہے |
| وہی گزرے ہوئے لمحات کا دکھ |
| کئی ہنگاموں سے گزرا ہوں میں بھی |
| نہیں دل سے گیا اس رات کا دکھ |
| شفق زادی تمہیں کیسے بتاؤں |
| بچھڑ جانے کی پہلی رات کا دکھ |
| دل و جاں ہارنے آئے تھے ہم ہی |
| کسے تھا اے مری جاں مات کا دکھ |
| جہاں میں خود سے باہر کون نکلا |
| کوئی سمجھا کہاں سقراط کا دکھ |
| اسی دکھ سے تو میں زندہ ہوں اب تک |
| بہت پیارا ہے اپنی ذات کا دکھ |
| کم اس دشتِ محبت میں کسی طور |
| نہیں ہوتا دلِ بد ذات کا دکھ |
| خداؤں کے جہاں میں کون سمجھا |
| ستم پروردہ آدم ذات کا دکھ |
معلومات