کیسے کیسے اندیشے تھے اپنے اس بزدل من میں |
پھول کھلے ہیں رنگ برنگے تنہائی کے آنگن میں |
۔ |
اپنے فلک کے اڑتے کھلتے شاہینوں تم کیا جانو |
ایک درخت پہ کیا گزری ہے ایسے بیگانے بن میں |
۔ |
کل جو میں نے غور سے دیکھا اپنے چہرے کو پہلی بار |
چہرے اتر آئے کچھ اپنے کچھ بیگانے درپن میں |
۔ |
ہم نے تیری ان میٹھی باتوں میں نہ آکر کیا پایا |
تجھ کو واعظ کیا معلوم اپنے اس دیوانے پن میں |
۔ |
سب مستانے سب دیوانے صحرا میں آ کے بس گئے |
باغباں رہا کیا اب تیرے اس بے رونق گلشن میں |
' |
الجھا الجھا ہے سب کچھ اس جسم و روح کی الجھن میں |
دم گھٹنے لگا ہے میرا اب مجبوری کے بندھن میں |
۔ |
ہر گھڑی مجھ کو نہ ہونے میں کچھ ہونے کا احساس رہا |
یہ تھی عجب سی سرشاری بھرپور سے اس خالی پن میں |
۔ |
اس کی خوشبو کے جھونکوں سے ہے میرے شجرِ دل کی |
ڈالی ڈالی ہریالی اور غنچہ غنچہ جوبن میں |
۔ |
پچھلا ساون کیا ساون تھا ہنستے کھلتے ساتھ تھے ہم |
تنہا تنہا گزری راتیں ساری اب کے ساون میں |
۔ |
جو اندر موجود نہیں وہ باہر کیسے ہو سکتا ہے |
سانجھ سویرے متوالے کیا ڈھونڈ رہا ہے درپن میں |
معلومات