جانے پر تھا اڑا میں نے جانے دیا
درمیاں تھا ہی کیا میں نے جانے دیا
جس کی آنکھوں میں میرے لیے کچھ نہ تھا
رک بھی جاتا تو کیا میں نے جانے دیا
کتنے شکوے تھے کتنے گلے تھے مجھے
میں مگر چپ رہا میں نے جانے دیا
اس مہک رو کو جاتے ہوئے دیکھ کر
دل نے دی تھی صدا میں نے جانے دیا
اور کتنی وفا کرتا میں لوگوں سے
جس کو بھی جانا تھا میں نے جانے دیا
وہ جسے جانے کی جلدی تھی ہر گھڑی
کیا اسے روکتا میں نے جانے دیا
بات کرتا مگر سامنے میرے تھا
اک مریضِ انا میں نے جانے دیا
لڑنا بیکار تھا، کس نے کی تھی وفا
کون تھا بے وفا میں نے جانے دیا

0
41