| خود پہ بیداد کر رہا ہوں میں |
| دل کو آباد کر رہا ہوں میں |
| خود کو تعمیر کرنے کے لیے ہائے |
| خود کو برباد کر رہا ہوں میں |
| ایک شیریں کے واسطے یارو |
| خود کو فرہاد کر رہا ہوں میں |
| عشق کی اس گھٹن سے جا تجھ کو |
| آج آزاد کر رہا ہوں میں |
| ان دسمبر کی سرد راتوں میں |
| بس تمہیں یاد کر رہا ہوں میں |
| مت ہی پوچھو کہ اپنے ساتھ یہاں |
| کیا ترے بعد کر رہا ہوں میں |
| چاندنی راتوں میں اے میرے چاند |
| دل کو شب زاد کر رہا ہوں میں |
| تنہا تنہا ہی اپنے کمرے میں |
| غم ہی ایجاد کر رہا ہوں مٰیں |
| ویسے بھی کس نے سننا ہے اس شہر |
| یونہی فریاد کر رہا ہوں میں |
معلومات