| ہاں میں نے تیرا دل توڑا |
| تجھ کو آدھے رستے چھوڑا |
| ہاں دیپ جلائے الفت کے |
| اور خواب دکھائے محبت کے |
| پھر آندھی چلائی خود میں نے |
| اور آنکھیں بجھائی خود میں نے |
| ہاں میں ہی گنہ گار ہوں تیرا |
| تیرے ارمانوں کا قتل کیا |
| تیری آنکھوں میں خواب سجائے |
| اور پھر ان خوابوں کا قتل کیا |
| وعدے بھی کئے ہیں نبھانے کے |
| پھران وعدوں کو توڈ دیا |
| پہلے عشق کی منزلیں دکھائیں |
| پھر آدھے رستے چھوڑ دیا |
| تجھ سے تری ہر خوشی چھینی ہے |
| حنا ہاتھوں کو بے رنگ کر دیا |
| تجھے خواب دکانے کے چکر میں |
| بستر ترا کانٹوں سے بھر دیا |
| اپنے لفظوں سے زخم دیے |
| تجھ کو لہجے سے مار دیا |
| میں سکوں کا لمحہ نہ دے سکا اور |
| تو نے مجھ پر سب وار دیا |
| میرے لہجے میں جو مٹھاس تھی |
| وہ زہر سے بھی کڑوی نکلی |
| میری چاہت اک کھیل بنی |
| اور تجھ پہ بہت بھاری نکلی |
| یہ اقرار کرتا ہوں میں کہ میں |
| کارِ دل میں خود غرض نکلا |
| تجھے جینا تھا خوشیوں کو، مجھ کو |
| پل پل مرنے کا مرض نکلا |
| خود سے باہر نہ نکل پایا |
| نہ ترے سانچے میں ڈھل پایا |
| تو کہ وقت کی طرح تھی تیز بہت |
| میں اتنی تیز نہ چل پایا |
| میں سمجھ نہیں پایا وقت کا کھیل |
| میں اپنے ہونے پہ روتا رہا |
| کچھ سمجھ نہیں پایا بخت کا کھیل |
| میں پاگل تجھ کو کھوتا رہا |
| تو کوئی حوا تھی جنت کی |
| میں مگر آدم سے کم نکلا |
| تو غم کے سائے سے تھی دور |
| مجھے اپنی ذات کا غم نکلا |
| جسے کھلنا تھا دل کی ہتھیلی پر |
| وہ گل میں نے کھلنے نہ دیا |
| تجھے چاہ تھی مجھ سے ملنے کی |
| تجھ کو خود سے ملنے نہ دیا |
| مجھے کب یہ خیال آتا جاناں |
| تر ے ماتھے کا سندور تھا میں |
| میں یہاں کے سانچے میں آیا نہیں |
| یہاں کی رسموں سے دور تھا میں |
| تو جہاں زادی تھی شفق زادی |
| میں جہاں کا تھا ہی نہیں مریم |
| تجھے رہنا تھا دنیا میں مگر |
| میں وہاں کا تھا ہی نہیں مریم |
| جو بھی چاہو سزا دو مجھ کو |
| مجھے کوسو بد دعا دو مجھ کو |
| میرے خوابوں کو گالی دو |
| میری ذات کو اچھالو تم |
| سب خیالوں پہ لعنت بھیجو |
| میرے اشعار پہ تھوکو تم |
| جو وعدے میں نے نبھائے نہیں |
| وہ سب طعنے اب دے ڈالو |
| تم مجھ پہ چیخو، مجھ پہ چِلاؤ |
| کہ میں سننا چاہتا ہوں سب کچھ |
| جو تم خود سے بھی کہہ نہ سکے |
| کہ میں جاناں جانتا ہوں سب کچھ |
| توڑ دے یہ خاموشی کا قفل |
| اور نفرت کا دریا بہنے دے |
| جو ستم تو نے مری وجہ سہے |
| اب وہی ستم مجھ کو سہنے دے |
| یا سب سے بڑی سزا یہ ہے |
| چھوڑ دو مجھے بھلا دو مجھ کو |
| لہو سے رنگے میرے ہاتھوں کو |
| میری ساری جھوٹی باتوں کو |
| جن میں روئی تو ان راتوں کو |
| کسی منطق سے صاف مت کرنا |
| قتالہ ترا قاتل ہوں میں |
| ہاں بے ایماں بزدل ہوں میں |
| جھوٹا ظالم بے دل ہوں میں |
| کبھی مجھ کو معاف مت کرنا |
| کبھی مجھ کو معاف مت کرنا |
معلومات