مختصر دل کا قصہ ہُوا ہی نہیں
یہ مسافر کہیں پر رُکا ہی نہیں
۔
تم نبھاتے ہو دل تو نبھاتے ہو کیا
درمیاں جب کہ عہدِ وفا ہی نہیں
۔
ساتھ تھا ہی نہیں میرے جو میرا تھا
جو مرے ساتھ تھا، میرا تھا ہی نہیں
۔
ایک قتالہ سے جا لڑی تھی نظر
اس سے آگے وہ قصہ بڑھا ہی نہیں
۔
ہوگا کیا میرا اس سے بڑا مدعا
میرے ہونے کا کچھ مدعا ہی نہیں
۔
میں بھی دیتا جواب اپنی بیزاری کا
کوئی مجھ سے مگر پوچھتا ہی نہیں
-
اس خرابے میں کیا ہونے کا حادثہ
آپ کے سامنے حادثہ ہی نہیں؟
۔
جان تھیں آپ جس کی کبھی اب وہ شخص
آپ کے بارے میں سوچتا ہی نہیں
۔
تھا دکھانا اسے ہم نے کیا کیا مگر
وہ کسی پل ادھر دیکھتا ہی نہیں
۔
ہم بھی گزرے عجب طرح کے آدمی
ہم نے جو کرنا تھا وہ کِیا ہی نہیں

0
49