| میں روشنی کے خواب سجائے ہوئے چلا |
| پھر وقت کی ہوا ہی بجھا لے گئی مجھے |
| میں بھی کسی یقین کے ساحل پہ تھا کھڑا |
| اک موجِ بے یقینی بہا لے گئی مجھے |
| خاموشیوں کے شہر میں بے خود تھا بیٹھا میں |
| اس اک مہک کی باد صبا لے گئی مُجھے |
| سویا ہوا تھا میں تیری یادوں کے فرش پر |
| یہ کس صدا کی گونج جگا لے گئی مجھے |
| ہر پل کے ساتھ میں بھی بکھرتا چلا گیا |
| یہ خاک تھی جو شکل بنا لے گئی مجھے |
| جلتے ہوئے چراغ سے دل جو لگا لیا |
| پھر بے وفا ہوا کی ادا لے گئی مجھے |
| مجھ کو خبر نہیں کہ میں کس سمت نکلا تھا |
| یہ راہ اپنی سمت گھما لے گئی مجھے |
| شب ساری یاد نے ہی جلاۓ رکھا مجھے |
| پر صبح ہوتے ہوتے بجھا لے گئی مجھے |
معلومات