| احسان آخری یہ بھی کر جانا چاہیے |
| اب تم کو میرے دل سے اتر جانا چاہیے |
| میں ہوں وہیں کھڑا جہاں وہ چھوڑ گیا |
| اس وقت کو تو کب کا گزر جانا چاہیے |
| اک تیرے ہجر کے لیے سو ہجر کاٹے ہیں |
| اب تو وہ زخم یاد کا بھر جانا چاہیے |
| جو خوابوں کی مہک چمنِ دل سے آتی تھی |
| اس کو بھی اب ہوا میں بکھر جانا چاہیے |
| یہ کیا کہ زخم زخم رہی عمر بے سبب |
| یہ دردِ دل کبھی تو ٹھہر جانا چاہیے |
| کب تک جلو گے یاد کی ٹوٹی منڈیر پر |
| دل تم کو کوئی فیصلہ کر جانا چاہیے |
| آوارگی بھی ٹھیک ہے پر رات ہوگئی |
| چل اُٹھ دِوانے اب تمہیں گھر جانا چاہیے |
| سب کچھ بھلا کے کوچ ہی کر لوں اے میرے دل |
| یا کچھ دن اس کے شہر ٹھہر جانا چاہیے؟ |
معلومات