احسان آخری یہ بھی کر جانا چاہیے
اب تم کو میرے دل سے اتر جانا چاہیے
میں ہوں وہیں کھڑا جہاں وہ چھوڑ گیا
اس وقت کو تو کب کا گزر جانا چاہیے
اک تیرے ہجر کے لیے سو ہجر کاٹے ہیں
اب تو وہ زخم یاد کا بھر جانا چاہیے
جو خوابوں کی مہک چمنِ دل سے آتی تھی
اس کو بھی اب ہوا میں بکھر جانا چاہیے
یہ کیا کہ زخم زخم رہی عمر بے سبب
یہ دردِ دل کبھی تو ٹھہر جانا چاہیے
کب تک جلو گے یاد کی ٹوٹی منڈیر پر
دل تم کو کوئی فیصلہ کر جانا چاہیے
آوارگی بھی ٹھیک ہے پر رات ہوگئی
چل اُٹھ دِوانے اب تمہیں گھر جانا چاہیے
سب کچھ بھلا کے کوچ ہی کر لوں اے میرے دل
یا کچھ دن اس کے شہر ٹھہر جانا چاہیے؟

53