تری گزاری ہوئی کوئی شام ہوں جاناں
پرانا قصہ ہوں لیکن تمام ہوں جاناں
ترے فراق کا میں زہر پی کے مر جاؤں؟
جو تیرا حکم، میں تیرا غلام ہوں جاناں
میں کیسے خود کو سنواروں میں کیسے خود کو چھوؤ
تمہارے بعد میں خود پر حرام ہوں جاناں
پلا دے تھوڑی سی اب اور مت یوں تڑپا مجھے
میں پچھلی شام سے ہی تشنہ کام ہوں جاناں
یہ وصل و ہجر شرارت ہے شوخ لمحوں کی
تو میری صبح ہے میں تیری شام ہوں جاناں
کہ تنکوں کی طرح بادِ صبا بکھیر نہ دے
مجھے سمیٹو کہ میں خرد خام ہوں جاناں
یہ تو سمجھتے ہیں میں تم سے بات کرتا ہوں
میں کب سے خود سے ہی ہم کلام ہوں جاناں
مہک، یہ پھول، یہ چنچل ہوائیں، یہ موسم
میں ان میں ڈھونڈتا تیرا پیام ہوں جاناں
بہت قریب بھی ہیں دور دور بھی ہیں بہت
تو مہ ہے بام پہ میں زیرِ بام ہوں جاناں
ہماری اپنی کہانی ہمارا اپنا اتیت
تو میری سیتا ہے میں تیرا رام ہوں جاناں

0
43