وہ جا رہی ہے گلشن ویران ہونے کو ہے |
دل موسمِ خزاں میں بے جان ہونے کو ہے |
لے کر تو خواہشوں کو بازار میں نہ آنا |
اس کاروبار میں دل نقصان ہونے کو ہے |
زادِ سفر نہ کھولو ہم سفرو ٹھہرو ٹھہرو |
یاں پھرنئے سفر کا اعلان ہونے کو ہے |
تبدیل ہونے کو ہے موسم رفاقتوں کا |
ہر روشناس آخر انجان ہونے کو ہے |
میں پیچھے ہٹ رہا ہوں خود سے مرے مخالف |
اب تیرا کام تھوڑا آسان ہونے کو ہے |
پھر ہو رہی ہے رخصت اس کی مہک یہاں سے |
یہ کمرہ یہ جہاں پھر سنسان ہونے کو ہے |
معلومات