وہ جا رہی ہے گلشن ویران ہونے کو ہے
دل موسمِ خزاں میں بے جان ہونے کو ہے
لے کر تو خواہشوں کو بازار میں نہ آنا
اس کاروبار میں دل نقصان ہونے کو ہے
زادِ سفر نہ کھولو ہم سفرو ٹھہرو ٹھہرو
یاں پھرنئے سفر کا اعلان ہونے کو ہے
تبدیل ہونے کو ہے موسم رفاقتوں کا
ہر روشناس آخر انجان ہونے کو ہے
میں پیچھے ہٹ رہا ہوں خود سے مرے مخالف
اب تیرا کام تھوڑا آسان ہونے کو ہے
پھر ہو رہی ہے رخصت اس کی مہک یہاں سے
یہ کمرہ یہ جہاں پھر سنسان ہونے کو ہے

0
52