| جھوٹے تھے ہم اور جھوٹے تھے ہمارے خواب |
| ساتھ ہمارے بکھر گئے آخر سارے خواب |
| پچھلے خوابوں کا انجام تو یاد ہے ناں |
| اب نہ دکھاؤ پھر وہی پیارے پیارے خواب |
| ان سوکھے دریاؤں میں کچھ پانی بھی تو ہو |
| خالی خالی آنکھوں سے کون سنوارے خواب |
| اب ہم میں جاناں اور سکت نہیں باقی |
| یہ رہے تحفے اور یہ رہے تمہارے خواب |
| لے گئی ان کو بادِ خزاں پھر جانے کہاں |
| دیکھے تھے جو ہم نے جہلم کے کنارے خواب |
| اتنا تو ٹھیک تھا تو نے زمیں سے بنائی آنکھ |
| لیکن یہ کیا ہے کہ فلک سے اتارے خواب |
| دن کے اجالوں میں تو دے رہے تھے امید |
| شام ہوئی تو ہوئے سب چاند ستارے خواب |
| ایسے نہ دیکھ کہ ہم میں کچھ بھی نیا نہیں ہے |
| بن جاری آنکھیں ہیں وہی بنجارے خواب |
| دم بھر رکنے کی مہلت بھی نہیں ہے میسر |
| اتنا سا جیون اور اتنے سارے خواب |
معلومات