| شہرِ ہستی کو بہ کو خاموشی ہے | 
| سن لو میری گفتگو خاموشی ہے | 
| / | 
| درمیاں جو شور ہے بے کار ہے | 
| جب میں خاموشی ہوں، تو خاموشی ہے | 
| / | 
| اب زباں کی کچھ ضرورت ہی نہیں | 
| اب تو پیارے رو بہ رو خاموشی ہے | 
| / | 
| اِس وجودی گیت سُر سنگیت کی | 
| گیت کارو آبرو خاموشی ہے | 
| / | 
| چار سو غزلیں سنائی دے رہیں | 
| اپنے گھر میں چار سو خاموشی ہے | 
| / | 
| کھلتے ہیں جس میں گلاب آنند کے | 
| ایسے سجدے کا وضو خاموشی ہے | 
| / | 
| شور و ہنگانے کی اس دنیا میں دور | 
| کتنے زخموں کا رفو خاموشی ہے | 
| / | 
| چیخنا چلانا تو کچھ بھی نہیں | 
| یارا اصلی ہاؤ ہو خاموشی ہے | 
| / | 
| رشتوں کا رکھتی ہے تازہ گفتگو | 
| جب کہ رشتوں کا لہو خاموشی ہے | 
 
    
معلومات