کتنی آنکھوں سے خون برسا
کتنے منظر بکھر گئے ہیں
کتنی آنکھیں ترس گئی ہیں
کتنے مقتل سنور گئے ہیں
کتنا دلکش ہے مقتلِ جاں
ہائےسفاک کی ادائیں
یہ بہتا خوں کسے پکارے
سنتا ہے کون کس کی آہیں
بہتی ہیں درد کی ہوائیں
چھائی ہے پھولوں پر خماری
گلشن کو ہی بنایا مقتل
یہ رت ہے اک صدی سے جاری
چھایا ہے موت کا تلاطم
پھولوں کا ہے خیال کس کو
جو سب ہیں محوِ رقص بسمل
دِکھتی ہیں آنکھیں لال کس کو
کتنے چہرے تھے کل جو اپنے
کتنے قصے تھے دل کے اپنے
جن کے ہم نے تھے خواب دیکھے
آئے دن وہ عذاب بن کے

0
2
22
مصرعوں میں حرف ندا بے ضروری ہے

0
جی شکریہ خوش رہیں

0