اُمّیدِ دید لے کے امّیدوار آئے
دل کی گلی میں تم کو ہر سو پکار آئے
دل کے دریچے تیری خوشبو کے منتظر ہیں
آؤ کہ دل کی نگری میں بھی بہار آئے
اس دشتِ دردِ جاں میں اک لمحے کے لیے بس
آنکھوں کو تو نظر آ کہ دل کو قرار آئے
سوچو ذرا اے دل یہ آسان تو نہیں ہے
اک انتظار میں ہم جیون گزار آئے
یہ تم ہو یا نظر کا دلکش فریب کوئی
ہم کو چھوؤ کہ ہم کو بھی اعتبار آئے
یہ کیسا حال ہے یار یہ کیسی منزلِ شوق
جب بے وفاؤں پر بھی اس دل کو پیار آئے
اہر کڑاکے کی سردی ہے یہ مانا لیکن
کھڑکی کھلی رکھو کچھ خوشبوئے یار آئے
نکلے تھے جستجو میں اک خواب سی مہک کی
پھر یوں ہوا ہم ایسے خود کو بھی ہار آئے
گل دستے ہاتھوں میں بھر بھر کے مزار آئے
جب غم سے مر گئے ہم تب غم گسار آئے

0
24