| خواب جنت کے دکھانے والے |
| ہم نہیں جھانسے میں آنے والے |
| کوئی کشتی بھی بنائی ہوتی |
| جا بہ جا دریا بنانے والے |
| جسم سے جان نکل جاتی ہے |
| مڑ کے مت دیکھ یوں جانے والے |
| شعر آتے ہیں کہاں سے مت پوچھ |
| ہم نہیں راز بتانے والے |
| جو تھا بے رنگ کبھی اس نے بھی |
| سیکھے ہیں ڈھنگ زمانے والے |
| یہ تو صحرا ہے کوئی تو نے کیا |
| سوچا تھا بستی بسانے والے |
| رائگانی کا گلہ کیا مجھ سے |
| پوچھا تھا مجھ کو بنانے والے |
| کس سے روٹھا ہوا ہے آج تو اور |
| ہیں کہاں تیرے منانے والے |
| کچھ سراغِ رہِ منزل تو چھوڑ |
| آخری شمع بجھانے والے |
| اپنے کیوں بھر دیے تصویر میں رنگ |
| میری تصویر بنانے والے |
| سوچ لے پہلے یہ آساں نہیں ہے |
| ہاتھ الفت کا بڑھانے والے |
| مجھ کو مرنے دے بچانے سے تو |
| مر رہا ہوں میں بچانے والے |
| میں تھا تجھ تک ہی پہنچنے والا |
| نیند سے مجھ کو جگانے والے |
| ہم نے بھی رسمِ محبت بدلی |
| ہم نہیں ہجر منانے والے |
| ایک دن فرش پہ رہ کے زرا دیکھ |
| عرش سے باتیں سنانے والے |
| تو جہاں جا رہا ہے جا خوش رہ |
| ہم بھی تجھ کو ہیں بھلانے والے |
| غور سے دیکھ ہمیں آخری بار |
| ہم نہیں لوٹ کے آنے والے |
| پہلے دیوار کھڑی ہی کیوں کی |
| آج دیوار گرانے والے |
| جی نہیں لگتا نئے موسموں میں |
| لوٹ آ دوست پرانے والے |
| جس کی قسمت میں تھا تو اس سے پوچھ |
| مجھ کو اے مفت میں پانے والے |
| اے غزل سر اٹھا ہیں آج کہاں |
| وہ ترے سننے سنانے والے |
معلومات