| اس نے زلفیں سنوارنی ہیں وقت نے ٹھہر جانا ہے |
| ایسے چاند کو دیکھنے چاند نے چھت پہ اتر جانا ہے |
| ان گھنی زلفوں کے جنگل میں بھٹکتے بھٹکتے آخر |
| دل نے ایسے نیلے دریا میں ڈوب کے مر جانا ہے |
| ہے ایسی تاثیر اس مسیحا زادی کے ہاتھوں میں |
| اس نے بس ہاتھ رکھنا ہے اور زخم نے بھر جانا ہے |
| دل ہم سے دیکھی نہیں جائے گی ایسی افسردہ صبح |
| کچھ بھی ہو لیکن تم نے کوئی فیصلہ کر جانا ہے |
| پہلے ہم دیوانے ہی تھے جس کوچے کی رونق |
| اب اس کوچئہ رنگ و بو سے چپ چاب گزر جانا ہے |
معلومات