اس نے زلفیں سنوارنی ہیں وقت نے ٹھہر جانا ہے
ایسے چاند کو دیکھنے چاند نے چھت پہ اتر جانا ہے
ان گھنی زلفوں کے جنگل میں بھٹکتے بھٹکتے آخر
دل نے ایسے نیلے دریا میں ڈوب کے مر جانا ہے
ہے ایسی تاثیر اس مسیحا زادی کے ہاتھوں میں
اس نے بس ہاتھ رکھنا ہے اور زخم نے بھر جانا ہے
دل ہم سے دیکھی نہیں جائے گی ایسی افسردہ صبح
کچھ بھی ہو لیکن تم نے کوئی فیصلہ کر جانا ہے
پہلے ہم دیوانے ہی تھے جس کوچے کی رونق
اب اس کوچئہ رنگ و بو سے چپ چاب گزر جانا ہے

0
41