رک گئے یا ٹھہر گئے ہوں گے
کون جانے کدھر گئے ہوں گے
جن دوانوں کو ڈھونڈتی ہے صبا
وہ سرِ شام مر گئے ہوں گے
اس نظر سے یوں چھلکی ہوگی شراب
سارے پیمانے بھر گئے ہوں گے
ہاتھ سے ہاتھ چھوٹا ہوگا پھر
خواب سارے بکھر گئے ہوں گے
وہ بھی شاید سنور گئی ہوگی
ہم بھی شاید سنور گئے ہوں گے
چند باتوں کو چند تہمتوں کو
لوگ افسانہ کر گئے ہوں گے
آج اس نے رکھا ہے ماتھے پہ ہاتھ
زخم تو سارے بھر گئے ہوں گے
چھڑ گئے ہوں گے شوق کی دیوار
پھر اترنے سے ڈر گئے ہوں گے
باتوں کے پاسدار تھے ہم سب
آخرش سب مکر گئے ہوں گے
گر گئی ہوگی زندگی کی چھت
کتنے معصوم مر گئے ہوں گے
وہ چمن سے گزر گئے ہوں گے
گل گریباں کتر گئے ہوں گے
اس خرابے میں آ کے آخر ہم
خاک سے خاک تر گئے ہوں گے
موت کی مہربانی سے پہلے
ہم کئی بار مر گئے ہوں گے

0
49