ملتی ہے نظر آہستہ آہستہ
ہوتا ہے اثر آہستہ آہستہ
کب تھا اسے مری حالت کا احساس
ٹوٹا ہے پتھر آہستہ آہستہ
اترتی ہے وہ ترچھی نظر آنکھوں سے
کٹتا ہے جگر آہستہ آہستہ
جان نکلنے کا احساس تو ہو کچھ
مجھ سے بچھڑ مگر آہستہ آہستہ
آیا ہے مجھ کو تیرے ہونے کا یقین
جکایا ہے سر آہستہ آہستہ
ہے بڑی نازک یہ دل کی رہ گزر سو
تو یہاں سے گزر آہستہ آہستہ
اترا ہے شب بھر نور دل کے گاؤں
آئی ہے سحر آہستہ آہستہ
ہم سفری کی ہیں چار گھڑیاں باقی
چل مرے ہم سفر آہستہ آہستہ
وہ خوابوں کی مہک آ رہی ہے یک دم
بولے بام و در آہستہ آہستہ
دم گھٹتا ہے میرا تو رک مت ساقی
اور پلا مگر آہستہ آہستہ
جس پر کوئی پرندہ نہ آ بسا آخر
سوکھا وہ شجر آہستہ آہستہ
مکر گیا وہ وعدوں سے جو یکایک
تو بھی اب مکر آہستہ آہستہ
چھٹ گئے کالے گیسو رخ سے اور چاند
آنے لگا نظر آہستہ آہستہ

54