ملتی ہے نظر آہستہ آہستہ |
ہوتا ہے اثر آہستہ آہستہ |
کب تھا اسے مری حالت کا احساس |
ٹوٹا ہے پتھر آہستہ آہستہ |
اترتی ہے وہ ترچھی نظر آنکھوں سے |
کٹتا ہے جگر آہستہ آہستہ |
جان نکلنے کا احساس تو ہو کچھ |
مجھ سے بچھڑ مگر آہستہ آہستہ |
آیا ہے مجھ کو تیرے ہونے کا یقین |
جکایا ہے سر آہستہ آہستہ |
ہے بڑی نازک یہ دل کی رہ گزر سو |
تو یہاں سے گزر آہستہ آہستہ |
اترا ہے شب بھر نور دل کے گاؤں |
آئی ہے سحر آہستہ آہستہ |
ہم سفری کی ہیں چار گھڑیاں باقی |
چل مرے ہم سفر آہستہ آہستہ |
وہ خوابوں کی مہک آ رہی ہے یک دم |
بولے بام و در آہستہ آہستہ |
دم گھٹتا ہے میرا تو رک مت ساقی |
اور پلا مگر آہستہ آہستہ |
جس پر کوئی پرندہ نہ آ بسا آخر |
سوکھا وہ شجر آہستہ آہستہ |
مکر گیا وہ وعدوں سے جو یکایک |
تو بھی اب مکر آہستہ آہستہ |
چھٹ گئے کالے گیسو رخ سے اور چاند |
آنے لگا نظر آہستہ آہستہ |
معلومات