کچھ کھوئی کھوئی رہتی ہوں کچھ الجھی الجھی رہتی ہوں |
تیری قربت میں آ کر میں تیری فرقت سہتی ہوں |
دن تو گزارتی ہوں ہنسی کے زنگین مکھوٹے پہن کر میں |
دن ڈھلتے ہی چاند نکلتے ہی شب بھر اشکوں میں بہتی ہوں |
وہ پاگل جانے کب ہجر کا یک طرفہ اعلان کرے |
بس اسی ایک خیال میں پل پل سہمی سہمی رہتی ہوں |
وہ دیوانہ ڈھونڈ رہا ہے مجھے جانے کس نگری میں |
اس کو یہ معلوم نہیں میں اسی کے گھر میں رہتی ہوں |
بھول ہی جاتی ہوں اپنی حالت میں کیسی ہوں کیا ہوں |
رہتا ہے کون مرے ساتھ اور کس کے ساتھ میں رہتی ہوں |
زہر تری بے رخی کا پی کر پل پل مرتی رہتی ہوں |
اور تجھ سے کیا کہوں تیری خاطر کیا کیا میں سہتی ہوں |
جن نظروں کی زینت تھی میں اب ان نظروں سے گر کر |
اپنے پاگل پن کا میں روز تماشا دیکھتی رہتی ہوں |
کب ہمت بڑھتی ہے میری کب اپنے لب کھولتی ہوں |
اس کے کڑوے لہجے کے سامنے میں تو بس چپ رہتی ہوں |
معلومات