کہہ دیا جو ان سے وہ نہیں کہنا تھا
ساری بات بگڑ گئی چپ رہنا تھا
دل کی پہاڑیوں سے نکل کر آخر
پلکوں تک آ گیا تھا میں مجھے بہنا تھا
مجھ کو یہاں کیسے پہچانتا کوئی
میں نے لباس آدمی کا پہنا تھا
کب تھا مجھے غرض اس کے آنے سے
مجھ کو تو انتظار میں رہنا تھا
یہ زندگی کا بھرم رکھا ہے ورنہ
خودکشی کا غم مجھے کہاں سہنا تھا
میں پاگل ہو گیا ہوں ہوش میں آکر
اے پاگل مجھے پاگل ہی رہنا تھا
کتنی دلکش تھی خوابوں کی عمارت
دکھ یہ تھا اس عمارت کو ڈھہنا تھا
اس نے دکھ بانٹا ہے جدائی کر کے
ورنہ یہ دکھ ہمیں یکجا سہنا تھا

0
33