| جو زندگی جینی تھی وہ جی ہی نہیں | 
| کیا کرتا تو جو ہم سفر تھی ہی نہیں | 
| یہ قصہ جو تھا ہجر کا قصہ تھا بس | 
| یہ زندگی تو زندگی تھی ہی نہیں | 
| کرتا تو کس منھ سے گلہ کرتا بھلا | 
| جب بات ایسی بھی کوئی تھی ہی نہیں | 
| جو کہتی تھی ملتے رہیں گے میری جان | 
| اب تو کہیں وہ لڑکی ملتی ہی نہیں | 
| جانِ تمنا کیا عجب ہے آج تک | 
| تیری تمنا بھی کبھی کی ہی نہیں | 
| تھی زندگی بھر جستجو جس کی مجھے | 
| وہ شے کہیں دنیا میں دیکھی ہی نہیں | 
| کتنا پریشاں تھا بس اک تیرے لیے | 
| اپنی بھی حالت میں نے دیکھی ہی نہیں | 
| اس دشتِ شوق و ذوق میں ہم کو ملا | 
| وہ جس کی ہم نے آرزو کی ہی نہیں | 
| کیسے چلا آتا نہیں میں تیرے پاس | 
| تو نے مگر دل سے صدا دی ہی نہیں | 
| سانسیں مری سانسوں سے الجھی ہی نہیں | 
| خوشبو مرے سانچے میں آئی ہی نہیں | 
| دیکھا ہے جب سے اس کو الجھا الجھا کچھ | 
| کچھ اپنی بھی حالت سدھاری ہی نہیں | 
| میں اک غزل تھا عشق کی اک بحر میں | 
| پر میرے مقطع تک وہ پہنچی ہی نہیں | 
 
    
معلومات