میں نے ہر بات کو معنی سے جدا رکھا ہے |
زندگی بھر یہ تماشا ہی بپا رکھا ہے |
آدمی اپنے ہی سائے سے پریشان رہا |
کیا عجب کھیل یہ دنیا نے رچا رکھا ہے |
خود سے بیزار ہوں، خود سے ہی گریزاں بھی ہوں |
میں نے ہر درد کو اپنا ہی سزا رکھا ہے |
اب بھی لفظوں میں تری بات چمک جاتی ہے |
اب بھی کاغذ پہ ترا نام لکھا رکھا ہے |
میں نے سمجھا تھا کہ میں خود کو سمجھ لوں گا مگر |
اک تہی ذہن کو حیرت میں چھپا رکھا ہے |
زندگی نام تھا اک شور کا، وہ بھی نہ رہا |
اب تو خاموشی کو آواز بنا رکھا ہے |
یہ جو خاموش لب و زخم ہیں گویا ہم نے |
درد کو لفظ کی دہلیز پہ لا رکھا ہ |
معلومات