میں نے ہر بات کو معنی سے جدا رکھا ہے
زندگی بھر یہ تماشا ہی بپا رکھا ہے
آدمی اپنے ہی سائے سے پریشان رہا
کیا عجب کھیل یہ دنیا نے رچا رکھا ہے
خود سے بیزار ہوں، خود سے ہی گریزاں بھی ہوں
میں نے ہر درد کو اپنا ہی سزا رکھا ہے
اب بھی لفظوں میں تری بات چمک جاتی ہے
اب بھی کاغذ پہ ترا نام لکھا رکھا ہے
میں نے سمجھا تھا کہ میں خود کو سمجھ لوں گا مگر
اک تہی ذہن کو حیرت میں چھپا رکھا ہے
زندگی نام تھا اک شور کا، وہ بھی نہ رہا
اب تو خاموشی کو آواز بنا رکھا ہے
یہ جو خاموش لب و زخم ہیں گویا ہم نے
درد کو لفظ کی دہلیز پہ لا رکھا ہ

0
21