| اپنی ہی دھن میں مست خواب کوئی |
| پھرتا ہے خانماں خراب کوئی |
| اس نے جب مسکرا کے دیکھا تو |
| شاخِ دل پر کھلا گلاب کوئی |
| اس نے جو نظریں پھیر لیں ہم سے |
| آنکھوں سے روٹھا جیسے خواب کوئی |
| پھر نہ جانے کہاں گئی وہ نگہ |
| پیتا تھا جس نگہ شراب کوئی |
| اس نے بھیجے تھے پھول سو میں نے |
| تحفے میں بھیجی تھی کتاب کوئی |
| سب در و بام گھر کے روشن تھے |
| چھت پہ تم تھے کہ ماہتاب کوئی |
| سارے الزام مجھ پہ ہی ڈالو |
| ہے کہاں مجھ سا بھی خراب کوئی |
| ایک چھوٹے سے دل کے کمرے میں |
| رہتا ہے بے حد و حساب کوئی |
معلومات