ستارے خفا ہوں تو کیا بات ہوگی
اگر تم گئے تو یہاں رات ہوگی
۔
مسافر ہیں ہم تو، سو ہم سے نہ پوچھو
کہاں دن کٹے گا کہاں رات ہوگی
۔
رہیں جو ادھوری وہ باتیں کسئ دن
ابھی چلتے ہیں پھر ملاقات ہوگی
۔
زرا ابر تو چھٹنے دو آسماں سے
ہماری ستاروں سے پھر بات ہوگی
۔
در و بام مہکے گے اس کے بدن سے
مرے گھر میں پھولوں کی برسات ہوگی
۔
بڑے زخم جھیلے ہیں اس اک کلی نے
سو اب وہ ہواؤں سے محتاط ہوگی
۔
کئی ہفتوں سے دل پریشاں سا ہے کچھ
یونہی کچھ نہیں ہوتا کچھ بات ہوگی

15