کانٹے کو گل کہو گے کب تک
بے دردی میں ہنسو گے کب تک
یوں اس کی یاد کے کنارے
دکھ کے کنکر چنو گے کب تک
خود سے باہر نکل جہاں دیکھ
خود میں ہی گم رہو گے کب تک
یہ حالت ہے عجب سی حالت
ایسی حالت سَہو گے کب تک
گُم سُم سنسان سڑ کوں پر یوں
تنہا تنہا پھرو گے کب تک
وہ گل اندام جا چکی ہے
اس کو آواز دو گے کب تک
دل جوگی اب کہیں ٹھہر جا
بستی بستی پھرو گے کب تک
دل اس گم نام شخص کے نام
خط الفت کے لکھو گے کب تک
اے دل آنکھوں سے میری تم بھی
خوں کی صورت بہو گے کب تک
کہہ دو سب بوجھ یہ اتارو
بات ایسی دل میں رکھو گے تک
یہ حسن و عشق سب فسوں ہے
دھوکے میں دل رہو گے کب تک
اب یہ دنیا ہی کوچ کر لو
تعنے ایسےسنو گے کب تک
اک دن آفت وہ آنی تو ہے
اس آفت سے بچو گے کب تک

0
25