| ہر حقیقت کو خواب میں نے کیا |
| جو کیا وہ جناب میں نے کیا |
| ۔ |
| ان ہواؤں کا کوئی دوش نہیں |
| اس کلی کو خراب میں نے کیا |
| ۔ |
| دھوپ میں اس کی جل رہا ہے بدن |
| جس کو خود آفتاب میں نے کیا |
| ۔ |
| جو مری زندگی تھی ہاں اسی کی |
| زندگی کو عذاب میں نے کیا |
| ۔ |
| وہ نگہ تو یوں پانی پانی تھی |
| اس نگہ کو شراب میں نے کیا |
| ۔ |
| پہلے ان زلفوں سے کی اس نے رات |
| پھر وہ رُخ ماہتاب میں نے کیا |
| ۔ |
| دے کے اپنے لبوں سے شوق کے رنگ |
| ان لبوں کو گلاب میں نے کیا |
| ۔ |
| مجھی سے نکلا ہے غموں کا ربط |
| جب غموں کا حساب میں نے کیا |
| ۔ |
| اس نے بے بحر سے دیے تھے غم |
| ان غموں کو کتاب میں نے کیا |
| ۔ |
| تھا خدائی پہ جس کو زعم بہت |
| اس کو بھی لاجواب میں نے کیا |
| ۔ |
| اتنا مت اچھلو اپنے مسند پر |
| تم کو تو کامیاب میں نے کیا |
| ۔ |
| کیا گلہ اس مہک رو سے کروں میں |
| جس کا خود انتخاب میں نے کیا |
| ، |
| جو کِیا تھا شروع میں نے خود |
| بند وہ آج باب میں نے کیا |
معلومات