میں کیسے کہوں کن لفظوں میں کہوں کیا ہو تم |
کسی دیوتا کا سایا ہو کہ خود دیوتا ہو تم |
یہ وجود جو ہے اک لمبا فسانہ ہے جس کا |
آغاز اگر میں ہوں لیکن انتہا ہو تم |
موزاؔؔٹ کی اور نہ بیتھووؔؔن کی سمفنی ہو |
اے میری مہک تم میرے دل کی راگنی ہو |
غالب اقبال سے تیرا واسطہ ہی نہیں ہے |
تم میرے خیالوں کی بے بحر سی شاعری ہو |
تم رومیؔؔ اور نہ ہی جامیؔؔ کا تصّور ہو |
تم میرے الجھے سلجھے تخیل کا سر ہو |
مونےؔ، ونچیؔؔ نہ پکاسؔؔو کی تصویر ہو تم |
سب حُسن و جاں کے فسانے کی تفسیر ہو تم |
سارے فنکاروں کی تحریریں اپنی جگہ |
جو ابھی تک لکھی نہیں گئی وہ تحریر ہو تم |
مرا رہبر میرا مرشد میرا پیر ہو تم |
تمہیں معلوم نہیں میری تقدیر ہو تم |
نہ کوئی ہومر کی اوڈیسی کا حوالہ ہو تم |
میرے دشتِ دل دشتِ جاں کا اجالا ہو تم |
نہ کوئی گنگا کی روانی، نہ ڈل کا سکوں ہو تم |
مری عادت میری وحشت میرا جنوں ہوتم |
تم ہو خوشبو جو میری سانسوں میں بسی ہے |
میرے ہونے کی مہک، میری ہستی ہو تم |
تو دیکھ مری جاں میں تیرا سایا ہی تو ہوں |
لیکن جانے کیوں مجھ کو بھُلا چکی ہو تم |
معلومات