پریشانیوں سے پریشان کیوں ہو |
اگر زندگی ہو تو آسان کیوں ہو |
/ |
یہی ہونا تھا اس جہانِ بلا میں |
تم ایسے نتیجوں پہ حیران کیوں ہو |
/ |
یہ قصہ پشیمانیوں کا ہے قصہ |
پشیمانیوں سے پشیمان کیوں ہو |
/ |
میں تو ہارنے کے لیے لڑ رہا تھا |
مری ہار پر لوگو حیران کیوں ہو |
/ |
یہاں حاکمِ شہر جو چاہتا ہے |
وہی میری نظموں کا عنوان کیوں ہو |
/ |
چلو ٹھیک ہے اجنبی ہی رہے ہم |
بھلا درمیاں جان و پہچان کیوں ہو |
/ |
میں تو جا رہا ہوں بَیابانِ نا سوت |
خداؤں کی بستی میں انسان کیوں ہو |
/ |
نہیں آنا جب اس کی خوشبو کو دربان |
تو زندان میں پھر ہوا دان کیوں ہو |
/ |
مرے سامنے ہو تم اے جانِ جاں جب |
مجھے اپنی حالت کا پھر دھیان کیوں ہو |
معلومات