| تم میں زیادہ اور خود میں کم رہے |
| جیسی بھی حالت میں رہے تاہم رہے |
| ۔ |
| ہم سے نہ پوچھو حالتوں کا حال ہم |
| سب حالتوں میں درہم و برہم رہے |
| ۔ |
| اب انتہا کی اجنبیت ہے تو کیا |
| ہم عرصہ تک اک دوجے کے محرم رہے |
| ۔ |
| سب مٹ گیا تھا، جسموں کا احساس تک |
| اک دوجے کے سانچے میں ہم یوں ضم رہے |
| ۔ |
| کوئی رہا آباد اپنے آپ میں؟ |
| سب در گمانِ جاں کسی عالم رہے |
| ۔ |
| اس ذہن کی دیوار پر کچھ تو رہا |
| وہ تو نہیں پر یادوں کے البم رہے |
| ؛ |
| کب مہرباں ہم پر نسیمِ وصل تھی |
| دل دشت میں بس ہجر کے موسم رہے |
معلومات