کون ہوں کیا ہوں یہ سب بتانے سے قاصر ہوں میں |
یوں سمجھ خود ہی منزل ہوں خود ہی مسافر ہوں میں |
تو ابھی دے رہا ہے مجھے پارسا کا خطاب |
پر ابھی کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ کافر ہوں میں |
ساتھ تو چل رہے ہیں مگر یونہی مجبوری میں |
وہ مری امرتا ہے نہ ہی اس کا ساحر ہوں میں |
رنگوں کا شیدا ہوں اور پروانہ ہوں حسن کا |
فسلفی ہوں کوئی اور نہ ہی کوئی شاعر ہوں میں |
جانے کیا بات ہے تجھ میں میں کچھ نہیں کہہ سکا |
ورنہ اے میری جاں دل دکھانے میں ماہر ہوں میں |
دنیا کی ان فضاؤں سے کیا لینا دینا مرا |
اپنے ہی آسمانوں کا اپنا سا طائر ہوں میں |
کوئی شامل نہیں اس فسانے میں میرے سوا |
خود ہی تصویر خود رنگ اور خود مصور ہوں میں |
دنیا والوں مجھے کم نہ سمجھو پڑھو غور سے |
ذات کے بابِ اول کا اک حرفِ آخر ہوں میں |
میرے منکر تجھے تو زرا سی بصیرت نہیں |
دیکھ تو دنیا کے ذرے ذرے میں ظاہر ہوں میں |
معلومات